باب: آنحضرت ﷺ کا احسان رکھ کر قیدیوں کو مفت چھوڑ دینا ، اور خمس وغیرہ نہ نکالنا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The free emancipation of the captives by the Prophet saws without taking out the Khumus from the booty)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3139.
حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسیران بدر کے متعلق فرمایاتھا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ ان نجس اور گندے لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کی سفارش سے انھیں چھوڑ دیتا۔‘‘
تشریح:
1۔ مطعم بن عدی وہ شخص ہے جس نے قریش کے اس معاہدے کو ختم کرانے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا جو بنو ہاشم اور بنو مطلب سے بائیکاٹ کے متعلق تھا نیز اس نے رسول اللہ ﷺ کو طائف سے واپسی کے وقت اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اسےبدلہ دینا چاہتے تھے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو مال غنیمت اور خمس کے متعلق کلی اختیار ہے وہ قیدیوں کو معاوضے کے بغیر بھی رہا کر سکتا ہے۔ ان پر یہ احسان کرنا امام کی صوابدید پر موقوف ہے۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غنیمت کی تقسیم سے قبل مجاہدین کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ البتہ ان کی تقسیم کے بعد ان کا مالک ہونا صحیح قرارپاتا ہےاگر قبل از تقسیم مجاہدین مالک ہو جائیں تو غنیمت میں وہ لوگ جو مجاہدین میں سے کسی کے باپ یا بھائی وغیرہ ہوں تو ان کا آزاد ہونا لازم ہوگا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ مجاہدین تقسیم سے پہلے مال غنیمت کے مالک نہیں ہوتے بہر حال امام کو مال غنیمت اور خمس میں پورا پورا اختیارحاصل ہوتا ہے وہ تقسیم سے پہلے اسے اپنی صوابدید پر خرچ کر سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3022
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3139
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3139
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3139
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
باب کا مطلب یہ ہے کہ غنیمت کا مال امام کے اختیار میں ہے۔ اگر چاہے تو تقسیم کرنے سے پہلے وہ کافروں کو پھیردے۔ یا ان کے قیدی مفت آزاد کردے۔ تقسیم کے بعد پھر وہ مال مجاہدین کی ملک ہوجاتا ہے۔
حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسیران بدر کے متعلق فرمایاتھا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ ان نجس اور گندے لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کی سفارش سے انھیں چھوڑ دیتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ مطعم بن عدی وہ شخص ہے جس نے قریش کے اس معاہدے کو ختم کرانے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا جو بنو ہاشم اور بنو مطلب سے بائیکاٹ کے متعلق تھا نیز اس نے رسول اللہ ﷺ کو طائف سے واپسی کے وقت اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اسےبدلہ دینا چاہتے تھے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو مال غنیمت اور خمس کے متعلق کلی اختیار ہے وہ قیدیوں کو معاوضے کے بغیر بھی رہا کر سکتا ہے۔ ان پر یہ احسان کرنا امام کی صوابدید پر موقوف ہے۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غنیمت کی تقسیم سے قبل مجاہدین کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ البتہ ان کی تقسیم کے بعد ان کا مالک ہونا صحیح قرارپاتا ہےاگر قبل از تقسیم مجاہدین مالک ہو جائیں تو غنیمت میں وہ لوگ جو مجاہدین میں سے کسی کے باپ یا بھائی وغیرہ ہوں تو ان کا آزاد ہونا لازم ہوگا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ مجاہدین تقسیم سے پہلے مال غنیمت کے مالک نہیں ہوتے بہر حال امام کو مال غنیمت اور خمس میں پورا پورا اختیارحاصل ہوتا ہے وہ تقسیم سے پہلے اسے اپنی صوابدید پر خرچ کر سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں محمد بن جبیر نے اور انہیں ان کے والد ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر مطعم بن عدی (جو کفر کی حالت میں مر گئے تھے) زندہ ہوتے اور ان نجس، ناپاک لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کی سفارش سے انہیں (فدیہ لیے بغیر) چھوڑ دیتا۔
حدیث حاشیہ:
آیت کریمہ إنما المشرکونَ نجس(التوبة: 28) کی بنا پر ان کو نجس کہا، شرک ایسی ہی نجاست ہے۔ مگر ہزار افسوس کہ آج کتنے نام نہاد مسلمان بھی اس نجاست میں آلودہ ہورہے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jubair bin Mutim (RA): The Prophet (ﷺ) talked about war prisoners of Badr saying, "Had Al-Mutim bin Adi been alive and interceded with me for these mean people, I would have freed them for his sake."