باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: What the Prophet saws used to give to those Muslims whose faith was not so firm)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
3150.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حنین کے دن کچھ لوگوں کو تقسیم میں زیادہ دیا تھا، چنانچہ اقرع بن حابس ؓ کو سو اونٹ، عیینہ ؓ کو بھی سو اونٹ دیے۔ ان کے علاوہ شرفائے عرب میں سے چند لوگوں کو اس طرح تقسیم میں کچھ زیادہ دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایسی تقسیم ہے کہ اس میں انصاف پیش نظر نہیں رکھا گیا یا اس میں اللہ کی رضا مقصود نہ تھی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نبی کریم ﷺ کو اس بات سے ضرور آگاہ کروں گا، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور آپ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر اللہ اور اس کا رسول ﷺ انصاف نہیں کریں گے تو پھر انصاف کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے۔ عبد اللہ بن مسعود ؓنے جب راز داری کے طور پرآپ سے یہ بات کی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا حتی کہ میں نے کہا: کاش! اس بات کا تذکرہ آپ سے نہ کرتا۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2448) 2۔قاضی عیاض اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والا کافر ہے اور اسے فوراً قتل کردیا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس گستاخ کوکوئی سزا نہ دی کیونکہ جرم ثابت ہونے کے لیے اقرار ہو یا کم ازکم دو گواہوں لیکن اس مقام پر صرف ایک گواہی تھی اور گستاخ نے صحت جرم سے بھی انکار کردیا ہو گا۔ (عمدة القاري:495/10) 2۔ اس روایت سے امام بخاری ىنے ثابت کیا ہے کہ امام وقت کو یہ حق ہے کہ تالیف قلب کے لیے کسی کو دوسروں سے زیادہ حصہ دے دے یہی وجہ ہے کہ گستاخ کو اعتراض کرنے کا موقع ملا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3033
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3150
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3150
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3150
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
تمہید باب
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے کہ غزوہ حنین میں جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت دیا تو آپ نے تالیف قلبی کے لیے اسے نو مسلم حضرات میں تقسیم کیا۔"(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330)
اس کو عبداللہ بن زید ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حنین کے دن کچھ لوگوں کو تقسیم میں زیادہ دیا تھا، چنانچہ اقرع بن حابس ؓ کو سو اونٹ، عیینہ ؓ کو بھی سو اونٹ دیے۔ ان کے علاوہ شرفائے عرب میں سے چند لوگوں کو اس طرح تقسیم میں کچھ زیادہ دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایسی تقسیم ہے کہ اس میں انصاف پیش نظر نہیں رکھا گیا یا اس میں اللہ کی رضا مقصود نہ تھی۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نبی کریم ﷺ کو اس بات سے ضرور آگاہ کروں گا، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور آپ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر اللہ اور اس کا رسول ﷺ انصاف نہیں کریں گے تو پھر انصاف کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی مگر انھوں نے صبر کیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے۔ عبد اللہ بن مسعود ؓنے جب راز داری کے طور پرآپ سے یہ بات کی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا حتی کہ میں نے کہا: کاش! اس بات کا تذکرہ آپ سے نہ کرتا۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2448) 2۔قاضی عیاض اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والا کافر ہے اور اسے فوراً قتل کردیا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس گستاخ کوکوئی سزا نہ دی کیونکہ جرم ثابت ہونے کے لیے اقرار ہو یا کم ازکم دو گواہوں لیکن اس مقام پر صرف ایک گواہی تھی اور گستاخ نے صحت جرم سے بھی انکار کردیا ہو گا۔ (عمدة القاري:495/10) 2۔ اس روایت سے امام بخاری ىنے ثابت کیا ہے کہ امام وقت کو یہ حق ہے کہ تالیف قلب کے لیے کسی کو دوسروں سے زیادہ حصہ دے دے یہی وجہ ہے کہ گستاخ کو اعتراض کرنے کا موقع ملا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے اس سلسلے میں نبی کریم ﷺسے روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ حنین کی لڑائی کے بعد نبی کریم ﷺ نے (غنیمت کی) تقسیم میں بعض لوگوں کو زیادہ دیا۔ جیسے اقرع بن حابس ؓ کو سو اونٹ دئیے، اتنے ہی اونٹ عیینہ بن حصین ؓ کو دئیے اور کئی عرب کے اشراف لوگوں کو اسی طرح تقسیم میں زیادہ دیا۔ اس پر ایک شخص (معتب بن قشیر منافق) نے کہا، کہ خدا کی قسم! اس تقسیم میں نہ تو عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور نہ اللہ کی خوشنودی کا خیال ہوا۔ میں نے کہا کہ واللہ! اس کی خبر میں رسول اللہ ﷺ کو ضرور دوں گا۔ چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کو اس کی خبر دی۔ آنحضرت ﷺ نے سن کر فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول ﷺ بھی عدل نہ کرے تو پھر کون عدل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ پر رحم فرمائے کہ ان کو لوگوں کے ہاتھ اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی لیکن انہوں نے صبر کیا۔
حدیث حاشیہ:
آپ نے اس منافق کو سزا نہیں دلوائی، کیوں کہ وہ اپنے قول سے انکاری ہوگیا ہوگا یا صرف ایک شخص عبداللہ بن مسعود ؓ کی گواہی تھی اور ایک کی گواہی پر جرم ثابت نہیں ہو سکتا، یا آپ ﷺ نے اس کو سزا دینا مصلحت نہ سمجھا ہو۔ قال القسطلاني لم ینقل أنه صلی اللہ علیه وسلم عاقبه وفي المقاصد قال قاضي عیاض حکم الشرع أن من سب النبي صلی اللہ علیه وسلم کفر و یقتل ولکنه لم یقتل تألیفا لغیرهم ولئلا یشتهر في الناس أنه صلی اللہ علیه وسلم یقتل أصحابه فینفروایعنی آنحضرت ﷺ کو گالی دینے والا کافر ہوجاتا ہے۔ جس کی سزا شرعاً قتل ہے مگر آپ نے مصلحتاً اس کو نہیں مارا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): On the day (of the battle) of Hunain, Allah's Apostle (ﷺ) favored some people in the distribution of the booty (to the exclusion of others); he gave Al-Aqra' bin Habis one-hundred camels and he gave 'Uyaina the same amount, and also gave to some of the eminent Arabs, giving them preference in this regard. Then a person came and said, "By Allah, in this distribution justice has not been observed, nor has Allah's Pleasure been aimed at." I said (to him), "By Allah, I will inform the Prophet (ﷺ) (of what you have said), "I went and informed him, and he said, "If Allah and His Apostle (ﷺ) did not act justly, who else would act justly. May Allah be merciful to Moses (ؑ), for he was harmed with more than this, yet he kept patient."