Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
(Chapter: The description of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3558.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر کے بال لٹکائے رکھتے جبکہ مشرکین اپنے سر کے بالوں کی مانگ نکالتے لیکن اہل کتاب اپنے سر کے بالوں کو لٹکاتے تھے۔ اوررسول اللہ ﷺ کو جس بات کے متعلق کوئی حکم نہ آتا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے۔ بعد میں رسول اللہ ﷺ بھی سر میں مانگ نکالنے لگے تھے۔
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے پسند تھی کہ وہ کم ازکم آسمانی دین پر عمل پیراہونے کے دعویدار تھے اور یہ بھی مقصود تھا کہ شاید وہ اس سلوک سے اسلام کے قریب آجائیں،لیکن جب آپ ان کے اسلام سے مایوس ہوگئے اور ان پر بدبختی غالب آگئی توآپ کو بہت سے معاملات میں ان کی مخالفت کا حکم ہوا۔صوم یوم عاشوراء استقبال قبلہ،حائضہ عورت سے میل جول اور یوم السبت اسی بنا پر تھی۔اور مشرکین کے ہاں بت پرستی کاچرچا تھا،اس لیے ان کی مخالفت فرماتے لیکن یہ مخالفت ان معاملات میں ہوتی تھی جن میں سنت ابراہیمی کا پتہ نہ چلتا تھا۔جب آپ کو کسی معاملے کے متعلق پتہ چل جاتا کہ ایسا کرنا سنتِ ابراہیم ؑ ہے تو مشرکین کی موافقت کی پروا نہیں کرتے تھے،اس کی مثالیں مناسک حج سے واضح ہیں۔ 2۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں میں کنگھی کرکے پیشانی پر چھوڑدیتے تھے لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔(مسند أحمد:215/3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے پہلے خوشبو لگاتے تو اس کی چمک دیر تک آپ کی مانگ میں برقراررہتی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اب بھی اس چمک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں دیکھ رہی ہوں جو احرام کے وقت لگائی تھی۔(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1538)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3425
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3558
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3558
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3558
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً28 احادیث بیان کی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دراصل کتاب المناقب کا تیسرا حصہ ہے جس میں صورت و سیرت کو ایک بہترین پیرائے میں بیان کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کے متعلق ایک مستند کتاب(الرسول كأنك تراه) ہے جسے سر زمین حجاز کے عالم دین الشیخ ابراییم بن عبد اللہ الحازمی نے مرتب کیا ہے راقم نے "آئینہ جمال نبوت"کے نام سے اس کا اُردو ترجمہ کیا اور دارالاسلام لاہور نے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے واللہ الحمد۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر کے بال لٹکائے رکھتے جبکہ مشرکین اپنے سر کے بالوں کی مانگ نکالتے لیکن اہل کتاب اپنے سر کے بالوں کو لٹکاتے تھے۔ اوررسول اللہ ﷺ کو جس بات کے متعلق کوئی حکم نہ آتا تو آپ اس میں اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے۔ بعد میں رسول اللہ ﷺ بھی سر میں مانگ نکالنے لگے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے پسند تھی کہ وہ کم ازکم آسمانی دین پر عمل پیراہونے کے دعویدار تھے اور یہ بھی مقصود تھا کہ شاید وہ اس سلوک سے اسلام کے قریب آجائیں،لیکن جب آپ ان کے اسلام سے مایوس ہوگئے اور ان پر بدبختی غالب آگئی توآپ کو بہت سے معاملات میں ان کی مخالفت کا حکم ہوا۔صوم یوم عاشوراء استقبال قبلہ،حائضہ عورت سے میل جول اور یوم السبت اسی بنا پر تھی۔اور مشرکین کے ہاں بت پرستی کاچرچا تھا،اس لیے ان کی مخالفت فرماتے لیکن یہ مخالفت ان معاملات میں ہوتی تھی جن میں سنت ابراہیمی کا پتہ نہ چلتا تھا۔جب آپ کو کسی معاملے کے متعلق پتہ چل جاتا کہ ایسا کرنا سنتِ ابراہیم ؑ ہے تو مشرکین کی موافقت کی پروا نہیں کرتے تھے،اس کی مثالیں مناسک حج سے واضح ہیں۔ 2۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں میں کنگھی کرکے پیشانی پر چھوڑدیتے تھے لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔(مسند أحمد:215/3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے پہلے خوشبو لگاتے تو اس کی چمک دیر تک آپ کی مانگ میں برقراررہتی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اب بھی اس چمک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں دیکھ رہی ہوں جو احرام کے وقت لگائی تھی۔(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1538)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عبید اللہ بن عبداللہ نے خبردی اور انہیں عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ ( سر کے آگے کے بالوں کو پیشانی پر ) پڑا رہنے دیتے تھے اور مشرکین کی یہ عادت تھی کہ وہ آگے کے سر کے بال دو حصوں میں تقسیم کرلیتے تھے ( پیشانی پر پڑا نہیں رہنے دیتے تھے ) اور اہل کتاب ( یہود ونصاریٰ ) سرکے آگے کے بال پیشانی پر پڑا رہنے دیتے تھے ۔ آنحضرت ﷺ ان معاملات میں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم آپ کو نہ ملا ہوتا ۔ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے ( اور حکم نازل ہونے کے بعد وحی پر عمل کرتے تھے ) پھر حضور ﷺ بھی سر میں مانگ نکالنے لگے ۔
حدیث حاشیہ:
اور پیشانی پر لٹکانا چھوڑدیا۔ شاید آپ کو حکم آگیا ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to let his hair hang down while the infidels used to part their hair. The people of the Scriptures were used to letting their hair hang down and Allah's Apostle (ﷺ) liked to follow the people of the Scriptures in the matters about which he was not instructed otherwise. Then Allah's Apostle (ﷺ) parted his hair.