Sahi-Bukhari:
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
()
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3646.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’گھوڑے تین قسم کے آدمیوں کے لیے ہیں: ایک کے لیے باعث ثواب، دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے گھوڑا باعث ثواب ہے وہ تو وہ شخص ہے جس نے اپنا گھوڑا اللہ کی راہ میں باندھ رکھاہے، وہ اسے چراگاہ یاباغ میں لمبی رسی سے باندھے رکھتاہے۔ گھوڑا اپنے طول وعرض میں جو کچھ چرلےگا وہ سب مالک کے لیے نیکیاں بن جائیں گی۔ اگر وہ رسی توڑ ڈالے اور ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید(اور اس کے قدموں کے آثار)اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گے۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پی لے، حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کاارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیوں میں شمار ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو کوئی مالداری ظاہر کرنے، پردہ پوشی اور سوال سے بچنے کی غرض سے گھوڑاپالتا ہے اور اللہ کا حق بھی فراموش نہیں کرتا جو اس کی گردن اور پشت سے وابستہ ہوتا ہے تو یہ گھوڑا اس کے لیے ایک طرح کی پردہ پوشی کا باعث ہے۔ تیسرا وہ شخص جو گھوڑے کو فخروغرور اور ریاکاری کے طور پر اور مسلمانوں سے دشمنی کے لیے باندھتا ہے تویہ گھوڑا اس کے لیے وبال جان ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس جامع آیت کے علاوہ ان کے متعلق مجھ پر کچھ نازل نہیں ہوا: ’’جو کوئی ایک ذرہ بھر نیکی کرے گا تو وہ اسے دیکھ لےگا اور جو کوئی ایک ذرہ بھر برائی کرے گا تو وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
تشریح:
1۔شارحین کو اس حدیث کے متعلق اشکال ہے کہ اسے عنوان سے کیا مطابقت ہے؟حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس طرح خبر دی اسی طرح وقوع ہوا۔وجہ مطابقت کے لیے یہی کافی ہے لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں ۔ہمارارجحان یہ ہےکہ یہ حدیث سابقہ احادیث کا تکملہ اور تتمہ ہے جن میں گھوڑوں میں خیروبرکت کا ہونا بیان کیا گیا ہے،یعنی قیامت کے دن تک انھیں خیر ہی خیر لازم ہے۔واللہ أعلم۔2۔آج کے جدید دور میں گاڑیوں نے گھوڑوں کی جگہ لے لی ہے جن کی دنیا کے ہرمیدان میں ضرورت پڑتی ہے،جنگی مواقع پر بالخصوص ان سے کام لیا جاتا ہے۔3۔حدیث میں مذکورہ تین اشخاص کا اطلاق لاری اور کاررکھنے والوں پر بھی ہوتا ہے۔بہت سی گاڑیاں بعض دفعہ بہترین ملی مفاد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ان کے مالک تفصیل بالا کے مطابق اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔اس کے باوجود گھوڑوں کی ضروریات بھی قائم ہیں۔پہاڑی علاقوں میں جنگی حالات سے ان کے بغیر نبرآزما ہونا بہت مشکل ہے۔واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3508
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3646
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3646
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3646
تمہید کتاب
(مَنَاقِب،مَنقَبَةُ)کی جمع ہے جس کے معنی اچھی خصلت کے ہیں عربی زبان میں اس کے برعکس صفت کو(مَثلَبَةُ) کہا جاتا ہے جس کی جمع (مَثَالِب) ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ تاریخی مواد کا یہ تیسرا حصہ ہے قبل ازیں سیرت انبیاء علیہ السلام کے حوالے سے مستند مواد ایک خاص ترتیب سے سپرد قلم کیا تھا اب خاتم الانبیاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو کتاب المناقب کے عنوان سے پیش کیا ہے چونکہ اس عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے علاوہ حسب و نسب قریش دیگر قبائل اور زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے کچھ حضرات کی منقبت بیان کرنا مقصود تھی۔ اس لیے مناقب کو جمع کےصیغے سے ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کو درج ذیل چار حصوں یں تقسیم کیا ہے1۔حسب و نسب : اس میں نسب کی افادیت و اہمیت قریش کی منقبت اور چند قبائل کا ذکر ہے پھر دور جاہلیت کے ان نعروں کی تردید ہے جو حسب و نسب کے بل بوتے پر لگائے جاتے تھے۔2۔سیرت نبوی: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام کنیت کردار ،وفات اور آخر میں آپ کی خصوصی صفت ختم نبوت کا ذکر ہے۔3۔صورت واخلاق : اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے مبارک کی جھلک اور آپ کے مکارم اخلاق کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔4۔معجزات : اس میں متعدد ایسے معجزات کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن کے سامنے انسان اپنی عقل کے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس عنوان کے آخر میں متفرقات کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی کچھ کرامات کا ذکر ہےپھر ان کی مجاہدانہ سر گرمیوں کے بیان پر اس عنوان کو ختم کر دیا گیا ہے۔سیرت نگاری اپنے فن کے اعتبار سے بہت نازک موضوع ہے گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ سیرت طیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اخلاق کریمانہ کانام ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان الفاظ میں یہ بیان کیا ہے ۔"قرآن کریم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔" اسے بیان کرنے کے لیے بہت سے لوازمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے جنھیں عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ قرآن کریم اور سیرت نبوی ہی وہ واحد منبع ہے جس سے ایک مسلمان کی زندگی سنورتی ہے اور اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطالعے سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق ، طرز زندگی ، عادات و اطوار، انداز تربیت اور دعوتی طریق کار کا پتہ چلتا ہے۔ دین کی سر بلندی کے لیے آپ کی کاوشیں مصائب وآلام برداشت کرنا، پھر جاں فشانی سے اس شجر کی آبیاری کرنا جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کوکون سی نعمتوں سے نوازا؟بے شمار معجزات آپ کے ہاتھوں ظاہر کر کے کس قدر عظیم الشان نصرت و تائید سے آپ کو ہمکنار کیا؟ یہ تمام چیزیں سیرت طیبہ ہی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتی ہیں لیکن افسوس کہ اس نازک موضوع پر قلم اٹھانے والے حضرات نے اس کی نزاکت کا خیال نہیں رکھا اور نہ صحت و صداقت ہی کا وہ معیار قائم رکھا جس کا یہ فن تقاضا کرتا ہے بلکہ افکار وخیالات اور جذبات واحساسات کے ہاں جو چیز پسند آگئی اسے سیرت طیبہ کے موضوع میں داخل کردیا گیا یہاں تک کہ بعض ایسی چیزیں بھی کتب سیرت میں داخل کردی گئیں جوفطرت اورعقل سلیم کے خلاف اور اصول دین سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر صاف ستھرا مواد مہیا کیا جائے جس میں راویوں کی چھان پھٹک کا اہتمام کیا گیا ہو اور معیار محدثین کے مطابق اسے پیش کرتے وقت صحت و ثقاہت کا التزام کیا گیا ہو کیونکہ سیرت کے حوالے سے چند واقعات حوادث کا ذکر کردینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کی روشنی میں ایک ایسا نظام مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس کے سانچے میں ڈھل کر مسلمانوں کی رفتاروگفتار اور کردار واطوار کو نکھرنا چاہیے اور اپنے پروردگار سے ان کا تعلق درج ذیل آیت کے عین مطابق ہونا چاہیے ۔" یقیناً تمھارے ہراس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔"(الاحزاب:33۔21)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اس موضوع کو اختیار کیا اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک کم دو صد احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سترہ معلق اور ایک سو بیاسی احادیث متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں اٹھہتر(78)مکرراور ایک سواکیس خالص ہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھائیس احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے مروی تقریباً سات آثار بھی پیش کیے ہیں آپ نے ان احادیث و آثار پر اٹھائیس چھوٹے چھوٹےعنوان قائم کر کے اس موضوع کی تکمیل کی ہے۔واضح رہے کہ سیرت طیبہ ایک فکری متاع ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا واحد راستہ بھی ہے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے ہی میں لوگوں کی فلاح و اصلاح پوشیدہ ہے کیونکہ اخلاق و عمل کے میدان میں اللہ کی کتاب ترجمانی کا علمی اور عملی اسلوب یہی سیرت طیبہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ کا تابع فرمان اور زندگی کے تمام معاملات اس کے سپرد کرنے کا عادی بن جاتا ہے چنانچہ اس عالم رنگ و بو میں انسان سے اسی بات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے اعمال و کردار اور قول و گفتار کو ڈھالنے کی توفیق دے آمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’گھوڑے تین قسم کے آدمیوں کے لیے ہیں: ایک کے لیے باعث ثواب، دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا ذریعہ اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے گھوڑا باعث ثواب ہے وہ تو وہ شخص ہے جس نے اپنا گھوڑا اللہ کی راہ میں باندھ رکھاہے، وہ اسے چراگاہ یاباغ میں لمبی رسی سے باندھے رکھتاہے۔ گھوڑا اپنے طول وعرض میں جو کچھ چرلےگا وہ سب مالک کے لیے نیکیاں بن جائیں گی۔ اگر وہ رسی توڑ ڈالے اور ایک یا دو بلندیاں دوڑجائے تو اس کی لید(اور اس کے قدموں کے آثار)اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گے۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور وہاں سے پانی پی لے، حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کاارادہ نہیں تھا، یہ بھی اس کی نیکیوں میں شمار ہوگا۔ دوسرا وہ شخص جو کوئی مالداری ظاہر کرنے، پردہ پوشی اور سوال سے بچنے کی غرض سے گھوڑاپالتا ہے اور اللہ کا حق بھی فراموش نہیں کرتا جو اس کی گردن اور پشت سے وابستہ ہوتا ہے تو یہ گھوڑا اس کے لیے ایک طرح کی پردہ پوشی کا باعث ہے۔ تیسرا وہ شخص جو گھوڑے کو فخروغرور اور ریاکاری کے طور پر اور مسلمانوں سے دشمنی کے لیے باندھتا ہے تویہ گھوڑا اس کے لیے وبال جان ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس جامع آیت کے علاوہ ان کے متعلق مجھ پر کچھ نازل نہیں ہوا: ’’جو کوئی ایک ذرہ بھر نیکی کرے گا تو وہ اسے دیکھ لےگا اور جو کوئی ایک ذرہ بھر برائی کرے گا تو وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔شارحین کو اس حدیث کے متعلق اشکال ہے کہ اسے عنوان سے کیا مطابقت ہے؟حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس طرح خبر دی اسی طرح وقوع ہوا۔وجہ مطابقت کے لیے یہی کافی ہے لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں ۔ہمارارجحان یہ ہےکہ یہ حدیث سابقہ احادیث کا تکملہ اور تتمہ ہے جن میں گھوڑوں میں خیروبرکت کا ہونا بیان کیا گیا ہے،یعنی قیامت کے دن تک انھیں خیر ہی خیر لازم ہے۔واللہ أعلم۔2۔آج کے جدید دور میں گاڑیوں نے گھوڑوں کی جگہ لے لی ہے جن کی دنیا کے ہرمیدان میں ضرورت پڑتی ہے،جنگی مواقع پر بالخصوص ان سے کام لیا جاتا ہے۔3۔حدیث میں مذکورہ تین اشخاص کا اطلاق لاری اور کاررکھنے والوں پر بھی ہوتا ہے۔بہت سی گاڑیاں بعض دفعہ بہترین ملی مفاد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ان کے مالک تفصیل بالا کے مطابق اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔اس کے باوجود گھوڑوں کی ضروریات بھی قائم ہیں۔پہاڑی علاقوں میں جنگی حالات سے ان کے بغیر نبرآزما ہونا بہت مشکل ہے۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا ، ان سے امام مالک نے ، ان سے زید بن اسلم نے ، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : گھوڑے تین آدمیوں کے لیے ہیں ۔ ایک کے لیے تووہ باعث ثواب ہیں اور ایک کے لیے وہ معاف یعنی مباح ہیں اور ایک کے لیے وہ وبال ہیں ۔ جس کے لیے گھوڑا باعث ثواب ہے یہ وہ شخص ہے جو جہاد کے لیے اسےپالے اور چراگاہ یا باغ میں اس کی رسی کو ( جس سے وہ بندھا ہوتا ہے ) خوب دراز کردے تو وہ اپنے اس طول وعرض میں جوکچھ بھی چرتاہے وہ سب اس کے مالک کے لیے نیکیاں بن جاتی ہیں اور اگر کبھی وہ اپنی رسّی تڑا کر دوچار قدم دوڑ لے تو اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث ثواب بن جاتی ہے اور کبھی اگر وہ کسی نہر سے گزرتے ہوئے اس میں سے پانی پی لے اگرچہ مالک کے دل میں اسے پہلے سے پانی پلانے کا خیال بھی نہ تھا ، پھر بھی گھوڑے کا پانی پینا اس کے لیے ثواب بن جاتا ہے ۔ اور ایک وہ آدمی جو گھوڑے کو لوگوں کے سامنے اپنی حاجت ، پردہ پوشی اور سوال سے بچے رہنے کی غرض سے پالے اور اللہ تعالیٰ کا جو حق اس کی گردن اور اس کی پیٹھ میں ہے اسے بھی وہ فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اس کے لیے ایک طرح کا پردہ ہوتا ہے اور ایک شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر اور دکھاوے اور اہل اسلام کی دشمنی میں پالے تو وہ اس کے لیے وبال جان ہے اور نبی کریم ﷺ سے گدھوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس جامع آیت کے سوا مجھ پر گدھوں کے بارے میں کچھ نازل نہیں ہوا کہ ”جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کرے گا تو اس کا بھی وہ بدلہ پائے گا اور جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی برائی کرے گا تو وہ اس کا بھی بدلہ پائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
آج کے دور میں گھوڑوں کی جگہ لاریوں اور ٹرکوں نے لے لی ہے جن کی دنیا کے ہر میدان میں ضرورت پڑتی ہے، جنگی مواقع پر حکومتیں کتنی پبلک لاریوں اور ٹرکوں کو حاصل کرلیتی ہیں اور ایسا کرنا حکومتوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ تین اشخاص کا اطلاق تفصیل بالا کے مطابق آج لاری وٹرک رکھنے والے مسلمانوں پر بھی ہوسکتا ہے کہ کتنی گاڑیاں بعض دفعہ بہترین ملی مفاد کے لیے استعمال میں آجاتی ہیں۔ ان کے مالک مذکورہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے ۔﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾ گھوڑوں کی تفصیلات آج بھی قائم ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A horse may be kept for one of three purposes: for a man it may be a source of reward; for another it may be a means of living; and for a third it may be a burden (a source of committing sins). As for the one for whom it is a source of reward, he is the one who keeps his horse for the sake of Jihad in Allah's Cause; he ties it with a long rope on a pasture or in a garden. So whatever its rope allows it to eat, will be regarded as good rewardable deeds (for its owner). And if it breaks off its rope and jumps over one or two hillocks, even its dung will be considered amongst his good deeds. And if it passes by a river and drinks water from it, that will be considered as good deeds for his benefit) even if he has had no intention of watering it. A horse is a shelter for the one who keeps it so that he may earn his living honestly and takes it as a refuge to keep him from following illegal ways (of gaining money), and does not forget the rights of Allah (i.e. paying the Zakat and allowing others to use it for Allah's Sake). But a horse is a burden (and a source of committing sins for him who keeps it out of pride and pretense and with the intention of harming the Muslims." The Prophet (ﷺ) was asked about donkeys. He replied, "Nothing has been revealed to be concerning them except this comprehensive Verse (which covers everything) :--'Then whosoever has done good equal to the weight of an atom (or a small ant), Shall see it (its reward) And whosoever has done evil equal to the weight of an atom (or a small) ant), Shall see it (Its punishment)." (99.7-8)