باب: نبی کریم ﷺ کی دعا کہ اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت قائم رکھ اور جومہاجر مکہ میں انتقال کر گئے‘ان کے لئے آپ کا اظہار رنج کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Merits of the Helpers in Madinah (Ansaar)
(Chapter: “O Allah! Complete the emigration of my Companions”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3936.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں اس بیماری میں موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فر مارہے ہیں۔ میرے پاس مال کی فراوانی ہے اور میری صرف ایک بیٹی وارث ہے۔ کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ عرض کی: نصف مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا: ’’ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور یہ تہائی بھی بہت ہے۔ تمہارا اپنی اولاد کو مال دار چھوڑ کر جانا اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو، وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘ احمد بن یونس نے ابراہیم بن سعد سے یہ روایت (أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ) کے بعد بایں الفاظ نقل کی ہے: ’’تم جو بھی خرچ کرو جس سے مقصود اللہ کی رضا مندی ہو تو اس کا ثواب تمہیں اللہ تعالٰی ضرور عطا فرمائے گا حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی باعث ثواب ہو گا۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں اپنے ساتھیوں کے بعد (مکہ میں) پیچھے چھوڑ دیا جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ’’تم ہرگز پیچھے نہیں رہو گے۔ تم جو عمل بھی اللہ کی رضاجوئی کے لیے کرو گے، اس سے تمہارا درجہ اور مرتبہ اور زیادہ ہو گا۔ شاید تم ان کے بعد زندہ رہو گے حتی کہ تمہارے سبب ایک قوم نفع اٹھائے گی اور دوسرے لوگ نقصان پہنچائے جائیں گے۔ اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت قبول فر اور انہیں ایڑیوں کے بل نہ لوٹا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ بے چارے سعد بن خولہ ؓ پر افسوس کرتے تھے کہ وہ مکہ مکرمہ میں فوت ہو گئے۔‘‘ احمد بن یونس اور موسٰی نے ابراہیم سے أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ بیان کیا ہے۔
تشریح:
1۔اس حدیث سے ہجرت کی قدروقیمت اور اہمیت وفضیلت بتانا مقصود ہے۔2۔رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین صحابہ کرام ؓ کے لیے استقامت کی دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ! ان کی ہجرت کو قائم رکھ اور شرف قبولیت سے ہمکنار کر۔ انھیں ہجرت کے برعکس کوئی کام کرکے الٹے پاؤں مت پھیر۔ پھر آپ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ پر اظہار افسوس فرمایا کہ وہ بے چارے اپنی مجبوری کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ نہ آسکے اور انھیں مکے ہی میں موت آئی۔3۔ اس حدیث میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے متعلق ایک پیش گوئی کاذکر ہے،چنانچہ وہ اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے۔ عراق اور فارس فتح کیا۔مسلمانوں کو فتوحات سے مالا مال اور مشرکین کو نقصان ہوا کہ وہ شکست کھا کرمیدان چھوڑ گئے۔ 4۔اس وقت حضرت سعد ؓ کی ایک بیٹی تھی۔ اس کےبعد اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کثیر سے نوازا۔ 5۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست وقلاش بننے کے بجائے ذرائع سے زیادہ مال کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہاں، اگرحرام ذرائع سے مال جمع کیا جائے یا وہ مال ایمان واسلام سے غافل کردے تو ایسا مال اللہ کی طرف سے موجب لعنت ہے۔
یہ عنوان دواجزاء پر مشتمل ہے۔پہلارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاہے:"اے اللہ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ہجرت کو قائم رکھ۔"دوسرا یہ کہ جنھوں نے ہجرت نہیں کی ان کے متعلق اظہار افسوس ۔چنانچہ یہ دونوں اجزاء پیش کردہ حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں اس بیماری میں موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فر مارہے ہیں۔ میرے پاس مال کی فراوانی ہے اور میری صرف ایک بیٹی وارث ہے۔ کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ عرض کی: نصف مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا: ’’ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور یہ تہائی بھی بہت ہے۔ تمہارا اپنی اولاد کو مال دار چھوڑ کر جانا اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو، وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔‘‘ احمد بن یونس نے ابراہیم بن سعد سے یہ روایت (أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ) کے بعد بایں الفاظ نقل کی ہے: ’’تم جو بھی خرچ کرو جس سے مقصود اللہ کی رضا مندی ہو تو اس کا ثواب تمہیں اللہ تعالٰی ضرور عطا فرمائے گا حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی باعث ثواب ہو گا۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں اپنے ساتھیوں کے بعد (مکہ میں) پیچھے چھوڑ دیا جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ’’تم ہرگز پیچھے نہیں رہو گے۔ تم جو عمل بھی اللہ کی رضاجوئی کے لیے کرو گے، اس سے تمہارا درجہ اور مرتبہ اور زیادہ ہو گا۔ شاید تم ان کے بعد زندہ رہو گے حتی کہ تمہارے سبب ایک قوم نفع اٹھائے گی اور دوسرے لوگ نقصان پہنچائے جائیں گے۔ اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت قبول فر اور انہیں ایڑیوں کے بل نہ لوٹا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ بے چارے سعد بن خولہ ؓ پر افسوس کرتے تھے کہ وہ مکہ مکرمہ میں فوت ہو گئے۔‘‘ احمد بن یونس اور موسٰی نے ابراہیم سے أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے ہجرت کی قدروقیمت اور اہمیت وفضیلت بتانا مقصود ہے۔2۔رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین صحابہ کرام ؓ کے لیے استقامت کی دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ! ان کی ہجرت کو قائم رکھ اور شرف قبولیت سے ہمکنار کر۔ انھیں ہجرت کے برعکس کوئی کام کرکے الٹے پاؤں مت پھیر۔ پھر آپ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ پر اظہار افسوس فرمایا کہ وہ بے چارے اپنی مجبوری کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ نہ آسکے اور انھیں مکے ہی میں موت آئی۔3۔ اس حدیث میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے متعلق ایک پیش گوئی کاذکر ہے،چنانچہ وہ اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے۔ عراق اور فارس فتح کیا۔مسلمانوں کو فتوحات سے مالا مال اور مشرکین کو نقصان ہوا کہ وہ شکست کھا کرمیدان چھوڑ گئے۔ 4۔اس وقت حضرت سعد ؓ کی ایک بیٹی تھی۔ اس کےبعد اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کثیر سے نوازا۔ 5۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست وقلاش بننے کے بجائے ذرائع سے زیادہ مال کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہاں، اگرحرام ذرائع سے مال جمع کیا جائے یا وہ مال ایمان واسلام سے غافل کردے تو ایسا مال اللہ کی طرف سے موجب لعنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عامر بن سعد بن مالک نے اور ان سے ان کے والد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ حجۃ الوداع 10ھ کے موقع پر میری مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے۔ اس مرض میں میرے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فرمارہے ہیں، میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی وارث ہے تو کیا میں اپنے دوتہائی مال کا صدقہ کردوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آدھے کا کردوں؟ فرمایا کہ سعد ! بس ایک تہائی کا کردو، یہ بھی بہت ہے۔ آدمی اگر اپنی اولاد کو مال دار چھوڑ کر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ احمد بن یونس نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے کہ ’’تم اپنی اولاد کو چھوڑ کر جو کچھ بھی خرچ کروگے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو گی تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا ثواب دے گا، اللہ تمہیں اس لقمہ پر بھی ثواب دے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالوگے۔‘‘ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے مکہ میں رہ جاؤںگا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم پیچھے نہیں رہو گے اور تم جو بھی عمل کروگے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہوگی تو تمہارا مرتبہ اس کی وجہ سے بلند ہو تا رہے گا اور شاید تم ابھی بہت دنوں تک زندہ رہو گے تم سے بہت سے لوگوں (مسلمانوں) کو نفع پہنچے گا اور بہتوں کو (غیرمسلموں کو) نقصان ہوگا، اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت پوری کردے اور انہیں الٹے پاؤں واپس نہ کر (کہ وہ ہجرت کو چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس آجائیں) البتہ سعد بن خولہ نقصان میں پڑگئے اور احمد بن یونس اور موسیٰ بن اسماعیل نے اس حدیث کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا اس میں (اپنی اولاد ( ذریت کو چھوڑ و، کے بجائے) تم اپنے وارثوں کو چھوڑو یہ الفاظ مروی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
حجۃ الوداع میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیمار ہو گئے اور بیماری شدت پکڑ گئی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے زندگی سے مایوس ہو کر اپنے ترکہ کے بارے میں مسائل معلوم کئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو مسائل سمجھائے اور ساتھ ہی تسلی دلائی کہ ابھی تم عرصہ تک زندہ رہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ حضرت سعد ؓ بعد میں چالیس سال زندہ رہے عراق فتح کیا اور بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو ئے ان کے بہت سے لڑکے بھی پیداہوئے۔ حدیث پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست مفلس قلاش بننے کی بجائے زیادہ سے زیادہ حلال طور پر کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے اور بزور رغبت دلاتا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو غربت تنگ دستی کی حالت میں چھوڑ کر انتقال نہ کریں یعنی پہلے سے ہی محنت و مشقت کرکے افلاس کا مقابلہ کریں۔ ضرور ایسی ترقی کریں کہ مرنے کے بعد ان کی اولاد تنگ دستی محتا جگی افلاس کی شکار نہ ہو۔ اسی لئے حضرت امام سعید بن مسیب مشہور محدث فرماتے ہیں: لا خیر في من لا یرید جمع المال من حله یکف به وجھه عن الناس ویصل به رحمه ویعطي منه حقه۔ ایسے شخص میں کوئی خوبی نہیں ہے جو حلال طریقہ سے مال جمع نہ کرے جس کے ذریعہ لوگوں سے اپنی آبرو کی حفاظت کرے اور خویش واقارب کی خبر گیری کرے اور اس کا حق ادا کرے۔ حضرت امام سبیعی کا قول ہے کانوا یرون السعة عونا علی الدینبزرگان دین خوش حالی کو دین کے لئے مدد گار خیال کرتے تھے۔ امام سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں: المال في زماننا ھذاسلاح المومنین مال ہمارے زمانہ میں مومن کا ہھتیار ہے (از منہاج القاصدین، ص:199) قرآن مجید میں زکوٰۃ کا بار بار ذکر ہی یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان مال دار ہو جو سالانہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کر سکے۔ ہاں مال اگر حرام طریقہ سے جمع کیا جائے یا انسان کو اسلام اور ایمان سے غافل کر دے تو ایسا مال خدا کی طرف سے موجب لعنت ہے۔ وفقنا اللہ لما یحب ویرضی (آمین)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad bin Malik: In the year of Hajjat-ul-Wada' the Prophet (ﷺ) visited me when I fell ill and was about to die because of that illness. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I am very ill as you see, and I am a rich man and have no heir except my only daughter. Shall I give 2/3 of my property in charity?" He said, "No." I said, "Shall I then give one half of it in charity?" He said, "O Sad! Give 1/3 (in charity) and even 1/3 is too much. No doubt, it is better to leave your children rich than to leave them poor, reduced to begging from others. And Allah will reward you for whatever you spend with the intention of gaining Allah's Pleasure even if it were a mouthful of food you put into your wives mouth." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Am I to be left behind (in Makkah) after my companions have gone?" He said, "If you should be left behind, you will be upgraded and elevated for every deed you will do with a desire to achieve Allah's Pleasure. I hope that you will live long so that some people will benefit by you while others will be harmed. O Allah! Please fulfill the migration of my companions and do not make them turn back on their heels. But (we feel sorry for) the unlucky Sad bin Khaulah." Allah's Apostle (ﷺ) lamented his death in Makkah.