Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4024.
حضرت جبیر بن معطم ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان پلید لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کے کہنے پر ضرور انہیں چھوڑ دیتا۔‘‘ حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے وقت پہلا فساد برپا ہوا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ اور واقعہ حرہ کے وقت دوسرا فساد رون ہوا تو اس نے اصحابہ حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا فتنہ برپا ہوا تو وہ اس وقت تک ختم نہیں ہوا جب تک ان میں کوئی خیروبرکت باقی تھی۔
تشریح:
1۔ جب جبیر بن مطعم ؓ بدری قیدیوں میں قید ہو کر مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسجد نبوی کے قریب رکھا گیا۔ اس وقت انھوں نے نماز مغرب میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت سنی تو اس سے متاثر ہوئے۔ آئندہ مسلمان ہونے کے لیے یہی قرآءت سبب بنی۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث:3050۔) ایک روایت کے مطابق حضرت جبیر مطعم ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہﷺ نے کچھ آیات تلاوت فرمائیں تو مارے خوف کے میرا دل اڑنے لگا۔ وہ آیات یہ تھیں: ﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (35) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ (36) أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ﴾ ’’کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی پیدا ہو گئے ہیں۔ یا وہ (خود اپنے) خالق ہیں یا آسمانوں اور زمین کو انھوں نے پیدا کیا ہے؟بلکہ وہ اللہ پر یقین نہیں رکھتے۔یا ان کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں؟ یا یہ ان خزانوں کے نگران ہیں۔‘‘ (الطور :35-36 و صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4853) 2۔رسول اللہ ﷺ نے مطعم بن عدی کے متعلق جن جذبات کا اظہار فرمایا: اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ طائف سے واپس لوٹے تو مطعم کی پناہ میں داخل ہوئے۔ اس نے آپ کو بچانے کے لیے اپنے چاروں بیٹوں کو مسلح کر کے بیت اللہ کے کونوں پر کھڑا کردیا تھا جس سے قریش ڈر گئے اور آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور کہنے لگے: ہم مطعم کی پناہ نہیں توڑ سکتے نیز انھوں نے وہ عہد نامہ ختم کرانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا جو قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف کیا تھا۔ (فتح الباري:404/7) 3۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے۔ یہ شہادت بلا وجہ اور مظلوما نہ تھی۔ آپ نے عدم تشدد کی پالیسی اختیار کی، فسادیوں کے خلاف تلوارنہیں اٹھائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا انتقام لیا، جب جمل، صفین اور نہر وان میں ہزاروں مسلمان مارے گئے بلکہ اکثر بدری صحابہ کرام موت کا لقمہ بن چکے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہ سب بدری صحابہ اس فتنے کا شکار ہوئے بلکہ اس وقت اسے ان کی اموات شروع ہو گئیں اور وہ بہت جلد ختم ہو گئے چنانچہ بدری صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہیں جو واقعہ حرہ سے چند سال پہلے فوت ہوئے۔ تیسرے فتنے نے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وجود ہی کو ختم کردیا۔ اس کے بعد کوئی صحابی زندہ نہ رہا۔ (فتح الباري:405/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3874
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4024
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4024
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4024
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
اس باب کا کوئی عنوان نہیں۔اس طرح کے ابواب سابقہ عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہوتے ہیں، چنانچہ اس باب میں غزوہ بدر کے متعلقات اور اس میں شرکت کرنے والوں کا ذکر ہو گا۔
حضرت جبیر بن معطم ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا: ’’اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان پلید لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کے کہنے پر ضرور انہیں چھوڑ دیتا۔‘‘ حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے وقت پہلا فساد برپا ہوا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ اور واقعہ حرہ کے وقت دوسرا فساد رون ہوا تو اس نے اصحابہ حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا فتنہ برپا ہوا تو وہ اس وقت تک ختم نہیں ہوا جب تک ان میں کوئی خیروبرکت باقی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جب جبیر بن مطعم ؓ بدری قیدیوں میں قید ہو کر مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسجد نبوی کے قریب رکھا گیا۔ اس وقت انھوں نے نماز مغرب میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت سنی تو اس سے متاثر ہوئے۔ آئندہ مسلمان ہونے کے لیے یہی قرآءت سبب بنی۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث:3050۔) ایک روایت کے مطابق حضرت جبیر مطعم ؓ نے فرمایا: جب رسول اللہﷺ نے کچھ آیات تلاوت فرمائیں تو مارے خوف کے میرا دل اڑنے لگا۔ وہ آیات یہ تھیں: ﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ (35) أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ (36) أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ﴾ ’’کیا وہ بغیر کسی چیز کے خود ہی پیدا ہو گئے ہیں۔ یا وہ (خود اپنے) خالق ہیں یا آسمانوں اور زمین کو انھوں نے پیدا کیا ہے؟بلکہ وہ اللہ پر یقین نہیں رکھتے۔یا ان کے پاس آپ کے پروردگار کے خزانے ہیں؟ یا یہ ان خزانوں کے نگران ہیں۔‘‘ (الطور :35-36 و صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4853) 2۔رسول اللہ ﷺ نے مطعم بن عدی کے متعلق جن جذبات کا اظہار فرمایا: اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ طائف سے واپس لوٹے تو مطعم کی پناہ میں داخل ہوئے۔ اس نے آپ کو بچانے کے لیے اپنے چاروں بیٹوں کو مسلح کر کے بیت اللہ کے کونوں پر کھڑا کردیا تھا جس سے قریش ڈر گئے اور آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور کہنے لگے: ہم مطعم کی پناہ نہیں توڑ سکتے نیز انھوں نے وہ عہد نامہ ختم کرانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا جو قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف کیا تھا۔ (فتح الباري:404/7) 3۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے۔ یہ شہادت بلا وجہ اور مظلوما نہ تھی۔ آپ نے عدم تشدد کی پالیسی اختیار کی، فسادیوں کے خلاف تلوارنہیں اٹھائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا انتقام لیا، جب جمل، صفین اور نہر وان میں ہزاروں مسلمان مارے گئے بلکہ اکثر بدری صحابہ کرام موت کا لقمہ بن چکے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہ سب بدری صحابہ اس فتنے کا شکار ہوئے بلکہ اس وقت اسے ان کی اموات شروع ہو گئیں اور وہ بہت جلد ختم ہو گئے چنانچہ بدری صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہیں جو واقعہ حرہ سے چند سال پہلے فوت ہوئے۔ تیسرے فتنے نے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وجود ہی کو ختم کردیا۔ اس کے بعد کوئی صحابی زندہ نہ رہا۔ (فتح الباري:405/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور اسی سند سے مروی ہے، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد (جبیر بن مطعم ؓ ) نے کہ نبی کریم ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا، اگر مطعم بن عدی ؓ زندہ ہوتے اور ان پلید قیدیوں کے لیے سفارش کرتے تو میں انہیں ان کے کہنے سے چھوڑ دیتا۔ اور لیث نے یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کیا، ا نہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی حضرت عثمان ؓ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا، پھر جب دو سرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا، پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی۔
حدیث حاشیہ:
جب حضرت جبیر بن مطعم ؓ بدری قیدیوں میں قید ہوکر آئے اور مسجد نبوی کے قریب مقید ہوئے تو انہوں نے مغرب کی نماز میں آنحضرت ﷺ سے سورۃ والطور کی قراءت سنی اور وہ بعد میں اس سے متاثر ہوتے ہوئے مسلمان ہوگئے۔ اسی سے حدیث کی مناسبت باب سے نکل آئی۔ مطعم بن عدی ؓ نے آنحضرت ﷺ پر کچھ احسان کیا تھا۔ جب آپ طائف سے لوٹے تو ان کی پناہ میں داخل ہوگئے تھے۔ مطعم ؓ نے آپ کی حفاظت کے لیے اپنے چار بیٹوں کو مسلح کرکے کعبے کے چاروں کونوں پر کھڑاکردیا تھا ۔ قریش یہ منظر دیکھ کر ڈر گئے اور کہنے لگے کہ ہم مطعم کی پناہ نہیں تو ڑسکتے۔ بعضوں نے کہا کہ مطعم ؓ نے وہ عہد نامہ ختم کرایا تھا۔ جو قریش نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف کیا تھا۔ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کا واقعہ اسلام میں فساد ہے۔ جو جمعہ کے دن آٹھویں ذی الحجہ کو برپا ہوا۔ جس کے متعلق حضرت سعید بن مسیب کا قول بقول علامہ داؤدی صریح غلط ہے اس فساد کے بعد بھی بہت سے بدری صحابہ زندہ تھے۔ بعضوں نے کہا پہلے فساد سے ان کی مراد حضرت حسین ؓ کی شہادت ہے اور دوسرے سے حرہ کا فساد جس میں یزید کی فوج نے مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ تیسرے فساد سے ازارقہ کا فساد مراد ہے ۔ جو عراق میں ہوا تھا۔ بعضوں نے یوں جواب دیا ہے کہ سعید بن مسیب کا مطلب یہ ہے کہ پہلے فساد یعنی قتل عثمان ؓ سے لے کر دوسرے فساد حرہ تک کوئی بدری صحابی باقی نہیں رہا تھا۔ یہ صحیح ہے کیوں کہ بدریوں کے آخر میں سعد بن ابی وقاص ؓ کا انتقال ہوا ہے وہ بھی حرہ کے واقعہ سے پہلے ہی گزرچکے تھے۔ تیسرے فساد سے بعض لوگوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت مرادلی ہے ۔ آخری عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اس فتنے نے تو صحابہ کا وجود بالکل ختم کردیا جس کے بعد کوئی صحابی دنیا میں باقی نہیں رہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa’id bin Al-Musaiyab (RA): When the first civil strife (in Islam) took place because of the murder of 'Uthman (RA), it left none of the Badr warriors alive. When the second civil strife, that is the battle of Al-Harra, took place, it left none of the Hudaibiya treaty companions alive. Then the third civil strife took place and it did not subside till it had exhausted all the strength of the people.