Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: ‘'Umra Al-Qada’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
انسؓ نے نبی کریم صلیﷺسے اس کا ذکر کیا ہے۔
4251.
حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکے میں داخل ہونے سے روک دیا یہاں تک کہ آپ نے ان سے ان شرائط پر صلح کر لی کہ آپ آئندہ سال عمرے کے موقع پر مکے میں تین دن تک ٹھہر سکیں گے۔ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ﷺ نے صلح کی ہے تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو کسی چیز سے نہیں روک سکتے تھے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔‘‘ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹا دو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دستاویز اپنے ہاتھ میں لی، حالانکہ آپ اچھی طرح لکھ نہیں سکتے تھے۔ آپ نے لکھا: ’’یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے کہ وہ مکے میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوں گے مگر وہ تلوار جو نیام میں ہو گی۔ اور اہل مکہ میں سے اگر کوئی آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو منع نہیں کریں گے۔‘‘ چنانچہ جب آپ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو مکہ والے حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آپ اپنے صاحب سے کہیں کہ وہ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مدت ختم ہو چکی ہے۔ نبی ﷺ مکہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی نے آواز دینا شروع کی: اے چچا! اے میرے چچا جان! حضرت علی ؓ نے اس کو اپنے قبضے میں لیا اور سیدہ فاطمہ ؓ سے کہا: اسے سنبھالو۔ یہ تمہارے چچا کی بیٹی ہے۔ سیدہ فاطمہ ؓ نے اسے پکڑ لیا، لیکن اس کے متعلق حضرت علی، حضرت زید اور حضرت جعفر رضی اللہ عنھم جھگڑنے لگے۔ حضرت علی ؓ نے کہا: میں نے اسے پکڑا ہے اور وہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ حضرت جعفر ؓ نے کہا: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ اور حضرت زید ؓ نے کہا: یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ نبی ﷺ نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا: "خالہ، ماں کی طرح ہوتی ہے۔" حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘ حضرت جعفر ؓ سے فرمایا: "تم صورت و سیرت میں میرے مشابہ ہو۔" اور حضرت زید ؓ سے فرمایا: ’’تم ہمارے بھائی اور مولی ہو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا: (اللہ کے رسول!) آپ حمزہ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (جس سے میرا نکاح نہیں ہو سکتا)۔‘‘
تشریح:
1۔عمرۃ القضا کے کئی ایک نام ہیں جن میں سے عمرۃالقضیہ عمرۃ الصلح اور عمرۃ القصاص زیادہ مشہور ہیں۔ 2۔امام بخاری ؒ نے عمرۃ القضا کو کتاب المغازی میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ کفار قریش نے جب مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا تومسلمانوں اور کافروں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا پھر انھوں نے اپنے احرام کھول دیے تھے۔ دوسرے سال جب سات ہجری میں مسلمان طے شدہ فیصلے کے مطابق عمرے کے لیے گئے تو اس وقت بھی جھگڑا ہوا تھا اگرچہ تلواروں کا استعمال نہیں ہوااور غزوے میں تلواروں کا استعمال ضروری بھی نہیں۔ 3۔واضح رہے کہ حضرت حمزہ ؓ کی جس بیٹی کے متعلق حضرت جعفر، حضرت زید ؓ اور حضرت علی ؓ میں جھگڑا ہوا اس کا نام عمارہ تھا اس کی والدہ سلمیٰ بنت عمیس ؓ ہے جو حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کی بہن ہیں۔ حضرت اسماء ؓ اس وقت حضرت جعفر ؓ کے نکاح میں تھیں، ان حضرت کا بنت حمزہ ؓ کے متعلق جھگڑا مکہ مکرمہ نہیں ہوا جیسا کہ روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے بلکہ مدینہ طیبہ پہنچ کر ہوا تھا۔ اس کی وضاحت خود حضرت علی ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں ہیں کہ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو ہم میں سے ہر ایک نے ان کی پرورش اور کفالت کا دعوی کیا۔ (مسند أحمد:98/1)چونکہ عمارہ بنت حمزہ ؓ کی خالہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ حضرت جعفر ؓ کے نکاح میں تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا:’’عمارہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی۔‘‘حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت کی ہے کہ حضرت عمارہ ؓ اپنی خالہ کے پاس رہیں جب جنگ موتہ میں حضرت جعفر شہید ہوئے تو انھوں نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد عمارہ حضرت علی ؓ کے پاس رہے گی۔ ان کے پاس رہتے ہوئے جب بالغ ہوئیں تو حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ اس سے نکاح کر لیں تو رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ عمارہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ اس کے باپ کو اور مجھے حضرت ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ رضاعت کے مسائل آئندہ بیان ہوں گے۔(فتح الباري:636/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4080
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4251
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4251
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4251
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
صلح حدیبیہ کے اگلے سال عمرہ قضا ہوا تھا۔ یہ نام اس لیے ہے کہ اسے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار قریش کے ساتھ ایک طے شدہ فیصلے کے مطابق ادا کیا گیا تھا۔ اس سے اصطلاحی قضا مراد نہیں کیونکہ آئندہ سال جو عمرہ کیا گیا تھا وہ اس عمرے کی قضا نہ تھی جس سے صلح حدیبیہ کے دن حلال ہوئے تھے۔ اسے عمرہ القصاص اور عمرۃ الصلح بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے عمرے کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار عمروں میں شمار کیا گیا ہے چونکہ اگرچہ اس کے ارکان ادا نہیں ہوئے تھے، تاہم اللہ کے ہاں اس کا ثواب ثابت ہو چکا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متعلق روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ چار، ان میں ایک صلح حدیبیہ کا عمرہ تھا جو ذوالقعدہ میں ادا ہوا جبکہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا تھا۔( صحیح البخاری العمرۃ حدیث:1778۔)
حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکے میں داخل ہونے سے روک دیا یہاں تک کہ آپ نے ان سے ان شرائط پر صلح کر لی کہ آپ آئندہ سال عمرے کے موقع پر مکے میں تین دن تک ٹھہر سکیں گے۔ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس میں لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ﷺ نے صلح کی ہے تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اگر ہمیں یقین ہو کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو کسی چیز سے نہیں روک سکتے تھے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔‘‘ پھر آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’لفظ ’’رسول اللہ‘‘ مٹا دو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دستاویز اپنے ہاتھ میں لی، حالانکہ آپ اچھی طرح لکھ نہیں سکتے تھے۔ آپ نے لکھا: ’’یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے کہ وہ مکے میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوں گے مگر وہ تلوار جو نیام میں ہو گی۔ اور اہل مکہ میں سے اگر کوئی آپ کے ساتھ جانا چاہے تو آپ اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو منع نہیں کریں گے۔‘‘ چنانچہ جب آپ آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو مکہ والے حضرت علی ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آپ اپنے صاحب سے کہیں کہ وہ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مدت ختم ہو چکی ہے۔ نبی ﷺ مکہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی نے آواز دینا شروع کی: اے چچا! اے میرے چچا جان! حضرت علی ؓ نے اس کو اپنے قبضے میں لیا اور سیدہ فاطمہ ؓ سے کہا: اسے سنبھالو۔ یہ تمہارے چچا کی بیٹی ہے۔ سیدہ فاطمہ ؓ نے اسے پکڑ لیا، لیکن اس کے متعلق حضرت علی، حضرت زید اور حضرت جعفر رضی اللہ عنھم جھگڑنے لگے۔ حضرت علی ؓ نے کہا: میں نے اسے پکڑا ہے اور وہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ حضرت جعفر ؓ نے کہا: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ اور حضرت زید ؓ نے کہا: یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے۔ نبی ﷺ نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا: "خالہ، ماں کی طرح ہوتی ہے۔" حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’تم مجھ سے ہو اور میں تجھ سے ہوں۔‘‘ حضرت جعفر ؓ سے فرمایا: "تم صورت و سیرت میں میرے مشابہ ہو۔" اور حضرت زید ؓ سے فرمایا: ’’تم ہمارے بھائی اور مولی ہو۔‘‘ حضرت علی ؓ نے کہا: (اللہ کے رسول!) آپ حمزہ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے (جس سے میرا نکاح نہیں ہو سکتا)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔عمرۃ القضا کے کئی ایک نام ہیں جن میں سے عمرۃالقضیہ عمرۃ الصلح اور عمرۃ القصاص زیادہ مشہور ہیں۔ 2۔امام بخاری ؒ نے عمرۃ القضا کو کتاب المغازی میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ کفار قریش نے جب مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا تومسلمانوں اور کافروں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا پھر انھوں نے اپنے احرام کھول دیے تھے۔ دوسرے سال جب سات ہجری میں مسلمان طے شدہ فیصلے کے مطابق عمرے کے لیے گئے تو اس وقت بھی جھگڑا ہوا تھا اگرچہ تلواروں کا استعمال نہیں ہوااور غزوے میں تلواروں کا استعمال ضروری بھی نہیں۔ 3۔واضح رہے کہ حضرت حمزہ ؓ کی جس بیٹی کے متعلق حضرت جعفر، حضرت زید ؓ اور حضرت علی ؓ میں جھگڑا ہوا اس کا نام عمارہ تھا اس کی والدہ سلمیٰ بنت عمیس ؓ ہے جو حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کی بہن ہیں۔ حضرت اسماء ؓ اس وقت حضرت جعفر ؓ کے نکاح میں تھیں، ان حضرت کا بنت حمزہ ؓ کے متعلق جھگڑا مکہ مکرمہ نہیں ہوا جیسا کہ روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے بلکہ مدینہ طیبہ پہنچ کر ہوا تھا۔ اس کی وضاحت خود حضرت علی ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں ہیں کہ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو ہم میں سے ہر ایک نے ان کی پرورش اور کفالت کا دعوی کیا۔ (مسند أحمد:98/1)چونکہ عمارہ بنت حمزہ ؓ کی خالہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ حضرت جعفر ؓ کے نکاح میں تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا:’’عمارہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی۔‘‘حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت کی ہے کہ حضرت عمارہ ؓ اپنی خالہ کے پاس رہیں جب جنگ موتہ میں حضرت جعفر شہید ہوئے تو انھوں نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد عمارہ حضرت علی ؓ کے پاس رہے گی۔ ان کے پاس رہتے ہوئے جب بالغ ہوئیں تو حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ اس سے نکاح کر لیں تو رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ عمارہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ اس کے باپ کو اور مجھے حضرت ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ رضاعت کے مسائل آئندہ بیان ہوں گے۔(فتح الباري:636/7)
ترجمۃ الباب:
اس کو حضرت انس ؓ نے نبیﷺسے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا‘ ان سے اسرائیل نے بیان کیا‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء ؓ نے بیان کیا کہ انس ؓ نبی کریم ﷺ نے ذی قعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا۔ مکہ والے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے مانع آئے۔ آخر معاہدہ اس پر ہوا کہ (آئندہ سال) مکہ میں تین دن آپ قیام کر سکتے ہیں‘ معاہدہ یوں لکھا جانے لگا ”یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا‘ کفار قریش کہنے لگے کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو روکتے ہی کیوں‘ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں‘ پھر علی ؓ سے فرمایا کہ (رسول اللہ کا لفظ مٹادو) انہوں نے کہاکہ ہر گز نہیں خدا کی قسم ! میں یہ لفظ کبھی نہیں مٹا سکتا۔ آنحضرت ﷺ نے وہ تحریر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے اس کے الفاظ اس طرح کر دیئے ”یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے کیا کہ وہ ہتھیار لے کر مکہ میں نہیں آئیں گے۔ البتہ ایسی تلوار جو نیام میں ہو ساتھ لاسکتے ہیں اور یہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی ان کے ساتھ جانا چاہےگا تو اسے اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے ساتھیوں میں کوئی مکہ میں رہنا چاہے گا تو وہ اسے نہ نبی کریم ﷺ نے ذی قعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا۔ مکہ والے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے مانع آئے۔ آخر معاہدہ اس پر ہوا کہ (آئندہ سال) مکہ میں تین دن آپ قیام کر سکتے ہیں‘ معاہدہ یوں لکھا جانے لگا ”یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا‘ کفار قریش کہنے لگے کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو روکتے ہی کیوں‘ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں‘ پھر علی ؓ سے فرمایا کہ (رسول اللہ کا لفظ مٹادو) انہوں نے کہاکہ ہر گز نہیں خدا کی قسم ! میں یہ لفظ کبھی نہیں مٹا سکتا۔ آنحضرت ﷺ نے وہ تحریر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے اس کے الفاظ اس طرح کر دیئے ”یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے کیا کہ وہ ہتھیار لے کر مکہ میں نہیں آئیں گے۔ البتہ ایسی تلوار جو نیام میں ہو ساتھ لاسکتے ہیں اور یہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی ان کے ساتھ جانا چاہےگا تو اسے اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے ساتھیوں میں کوئی مکہ میں رہنا چاہے گا تو وہ اسے نہ روکیں گے“ پھر جب (آئندہ سال) آپ اس معاہدہ کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے (اور تین دن کی) مدت پوری ہو گئی تو مکہ والے علی ؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں‘ کیوںکہ مدت پوری ہوگئی ہے۔ جب آنحضرت ﷺ مکہ سے نکلے تو آپ کے پیچھے حمزہ ؓ کی بیٹی چچاچچا کہتی ہوئی آئیں۔ علی ؓ نے انہیں لے لیا اور ہاتھ پکڑ کر فاطمہ ؓ کے پاس لائے اور کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو میں اسے لیتا آیا ہوں۔ علی ‘زید ‘ جعفر کا اختلاف ہوا۔ علی ؓ نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اور جعفر ؓ نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اس کی خالہ میرے نکاح میں ہیں۔ زید ؓ نے کہا یہ میرے بھائی کی لڑکی ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ فرمایا (جو جعفر ؓ کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے اور علی ؓ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں‘ جعفر ؓ سے فرمایا کہ تم صورت وشکل اور عادت واخلاق دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو اور زید ؓ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو۔ علی ؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ حمزہ ؓ کی صاحبزادی کو آپ اپنے نکاح میں لے لیں لیکن آپ نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حمزہ ؓ آنحضرت ﷺ کے رضاعی بھائی اور حقیقی چچا تھے اس لیے حلال نہ تھی۔ روایت میں عمرہ قضا کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔ امام ابو الولید باجی نے اس حدیث کا مطلب یہی بیان کیا ہے کہ گو آپ لکھنا نہیں جانتے تھے مگر آپ نے معجزہ کے طور پر اس وقت لکھ دیا۔ قسطلانی نے کہا کہ حدیث کا ترجمہ یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا اور آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے۔ آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ کہاں ہے انہوں نے بتلادیا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اسے میٹ دیا پھر وہ کاغذ حضرت علی ؓ کو دے دیا انہوں نے پھر پورا صلح نامہ لکھا اس تقریر پر کوئی اشکال باقی نہ رہے گا۔ حافظ نے کہا اس حدیث سے حضرت جعفر ؓ کی بڑی فضیلت نکلی۔ خصائل اور سیرت میں آپ رسول اللہ ﷺ سے مشابہت تامہ رکھتے تھے۔ یہ لڑکی حضرت جعفر ؓ کی زندگی تک ان کے پاس رہی جب وہ شہید ہوئے تو ان کی وصیت کے مطابق حضرت علی ؓ کے پاس رہی اور ان ہی کے پاس جوان ہوئی۔ اس وقت حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ سے نکاح کے لیے کہا تو آپ نے یہ فرمایا جو روایت میں موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara (RA) : When the Prophet (ﷺ) went out for the 'Umra in the month of Dhal-Qa'da, the people of Makkah did not allow him to enter Makkah till he agreed to conclude a peace treaty with them by virtue of which he would stay in Makkah for three days only (in the following year). When the agreement was being written, the Muslims wrote: "This is the peace treaty, which Muhammad, Apostle of Allah (ﷺ) has concluded." The infidels said (to the Prophet), "We do not agree with you on this, for if we knew that you are Apostle of Allah (ﷺ) we would not have prevented you for anything (i.e. entering Makkah, etc.), but you are Muhammad, the son of 'Abdullah." Then he said to 'Ali, "Erase (the name of) 'Apostle of Allah'." 'Ali said, "No, by Allah, I will never erase you (i.e. your name)." Then Allah's Apostle (ﷺ) took the writing sheet...and he did not know a better writing..and he wrote or got it the following written! "This is the peace treaty which Muhammad, the son of 'Abdullah, has concluded: "Muhammad should not bring arms into Makkah except sheathed swords, and should not take with him any person of the people of Makkah even if such a person wanted to follow him, and if any of his companions wants to stay in Makkah, he should not forbid him." (In the next year) when the Prophet (ﷺ) entered Makkah and the allowed period of stay elapsed, the infidels came to Ali and said "Tell your companion (Muhammad) to go out, as the allowed period of his stay has finished." So the Prophet (ﷺ) departed (from Makkah) and the daughter of Hamza followed him shouting "O Uncle, O Uncle!" Ali took her by the hand and said to Fatima, "Take the daughter of your uncle." So she made her ride (on her horse). (When they reached Medina) 'Ali, Zaid and Ja'far quarreled about her. 'Ali said, "I took her for she is the daughter of my uncle." Ja'far said, "She is the daughter of my uncle and her aunt is my wife." Zaid said, "She is the daughter of my brother." On that, the Prophet (ﷺ) gave her to her aunt and said, "The aunt is of the same status as the mother." He then said to 'Ali, "You are from me, and I am from you," and said to Ja'far, "You resemble me in appearance and character," and said to Zaid, "You are our brother and our freed slave." 'Ali said to the Prophet (ﷺ) 'Won't you marry the daughter of Hamza?" The Prophet (ﷺ) said, "She is the daughter of my foster brother."