باب: حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب اور خالد بن ولید ؓ کو یمن بھیجنا
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: Sending 'Ali and Khalid رضي الله عنهما to Yemen)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4351.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں صاف کردہ چمڑے میں تھوڑا سا سونا بھیجا جو ابھی مٹی سے علیحدہ نہیں کیا گیا تھا۔ آپ نے اسے چار اشخاص عیینہ بن بدر، ارقع بن حابس، زید الخلیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل میں تقسیم کر دیا۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا: ہم ان لوگوں سے اس سونے کے زیادہ حق دار تھے۔ نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے، حالانکہ اس پروردگار کو مجھ پر اعتماد ہے جو آسمانوں پر ہے اور صبح و شام میرے پاس آسمانی خبر آتی رہتی ہے۔‘‘ اس دوران میں ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئیں، رخسار پھولے ہوئے، پیشانی ابھری ہوئی، گھنی داڑھی، سر منڈا اور اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ڈریں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو ہلاک ہو جائے! کیا میں روئے زمین کے لوگوں میں اللہ سے ڈرنے کا زیادہ حق دار نہیں ہوں؟‘‘ پھر وہ شخص چلا گیا تو حضرت خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، شاید وہ نماز پڑھتا ہو گا۔‘‘ حضرت خالد ؓ نے کہا: بہت سے نمازی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ منہ سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کسی کے دل ٹٹولنے یا پیٹ چیرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘ پھر آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا اور فرمایا: ’’یقینا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ کتاب اللہ کی تلاوت سے ان کی زبانیں تر ہوں گی، حالانکہ وہ (کتاب) ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گی۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’اگر میں ان کو پاؤں تو انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کروں۔‘‘
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اللہ کا مال کسی مصلحت کے پیش نظر جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں، اس تقسیم پر اعتراض کرنا اپنے ایمان کو خیرآباد کہناہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پراعتراض کرنے والا ذوالخویصرہ تمیمی تھا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3610) اس تقسیم پر قریش اور انصار ناراض ہوئے تھے کہ ہمیں نظر انداز کرکے نجد کے سرداروں کو نوازا جارہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو ان کی دل جوئی کرتا ہوں تاکہ اسلام پر جمے رہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344) یہ واقعہ جعرانہ میں تقسیم غنائم کے علاوہ ہے۔ (فتح الباري:86/8) صحیح بخاری ؒ کی ایک روایت میں ہے کہ ذوالخویصرہ کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے۔(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344۔) وہ عبادات میں اس قدرتصنع کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم اپنی نمازوں اورروزوں کو ان کی نمازوں اورعبادات کےمقابلے میں حقیر خیال کروگے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث:5058) رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی خوارج کے حق میں پوری ہوئی جو حضرت علی ؓ کے دورخلافت میں ظاہر ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے انھیں کیفرکردارتک پہنچایا۔ (فتح الباري:87/8) رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے ذوالخویصرہ اگرچہ قتل کا حق دار ہوچکا تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے قتل کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ دوسرے لوگ باتیں کریں گے کہ اس نے اپنوں کو قتل کرناشروع کردیا ہے، نیز اس وقت اس کی جماعت نے تحریک کی شکل میں ظہور نہیں کیا تھا، جب تحریک کی شکل اختیار کی تو حضرت علی ؓ نے انھیں قتل کروایا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس تحریک کو کچلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4168
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4351
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4351
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4351
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں صاف کردہ چمڑے میں تھوڑا سا سونا بھیجا جو ابھی مٹی سے علیحدہ نہیں کیا گیا تھا۔ آپ نے اسے چار اشخاص عیینہ بن بدر، ارقع بن حابس، زید الخلیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل میں تقسیم کر دیا۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا: ہم ان لوگوں سے اس سونے کے زیادہ حق دار تھے۔ نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے، حالانکہ اس پروردگار کو مجھ پر اعتماد ہے جو آسمانوں پر ہے اور صبح و شام میرے پاس آسمانی خبر آتی رہتی ہے۔‘‘ اس دوران میں ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئیں، رخسار پھولے ہوئے، پیشانی ابھری ہوئی، گھنی داڑھی، سر منڈا اور اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ڈریں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو ہلاک ہو جائے! کیا میں روئے زمین کے لوگوں میں اللہ سے ڈرنے کا زیادہ حق دار نہیں ہوں؟‘‘ پھر وہ شخص چلا گیا تو حضرت خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، شاید وہ نماز پڑھتا ہو گا۔‘‘ حضرت خالد ؓ نے کہا: بہت سے نمازی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ منہ سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کسی کے دل ٹٹولنے یا پیٹ چیرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘ پھر آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا اور فرمایا: ’’یقینا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ کتاب اللہ کی تلاوت سے ان کی زبانیں تر ہوں گی، حالانکہ وہ (کتاب) ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گی۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’اگر میں ان کو پاؤں تو انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کروں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اللہ کا مال کسی مصلحت کے پیش نظر جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں، اس تقسیم پر اعتراض کرنا اپنے ایمان کو خیرآباد کہناہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پراعتراض کرنے والا ذوالخویصرہ تمیمی تھا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3610) اس تقسیم پر قریش اور انصار ناراض ہوئے تھے کہ ہمیں نظر انداز کرکے نجد کے سرداروں کو نوازا جارہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو ان کی دل جوئی کرتا ہوں تاکہ اسلام پر جمے رہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344) یہ واقعہ جعرانہ میں تقسیم غنائم کے علاوہ ہے۔ (فتح الباري:86/8) صحیح بخاری ؒ کی ایک روایت میں ہے کہ ذوالخویصرہ کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے۔(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3344۔) وہ عبادات میں اس قدرتصنع کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم اپنی نمازوں اورروزوں کو ان کی نمازوں اورعبادات کےمقابلے میں حقیر خیال کروگے۔‘‘ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث:5058) رسول اللہ ﷺ کی یہ پیش گوئی خوارج کے حق میں پوری ہوئی جو حضرت علی ؓ کے دورخلافت میں ظاہر ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے انھیں کیفرکردارتک پہنچایا۔ (فتح الباري:87/8) رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے ذوالخویصرہ اگرچہ قتل کا حق دار ہوچکا تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے قتل کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ دوسرے لوگ باتیں کریں گے کہ اس نے اپنوں کو قتل کرناشروع کردیا ہے، نیز اس وقت اس کی جماعت نے تحریک کی شکل میں ظہور نہیں کیا تھا، جب تحریک کی شکل اختیار کی تو حضرت علی ؓ نے انھیں قتل کروایا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس تحریک کو کچلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہاہم سے عبد الواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع بن شبر مہ نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن ابی نعیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو سعید خدری ؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یمن سے علی بن ابی طالب ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دئے ہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے۔ ان سے (کان کی) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ ؓ تھے یا عامر بن طفیل ؓ تھے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب نے اس پر کہا کہ ان لو گو ں سے زیا دہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب آنحضرت ﷺ کومعلوم ہوا تو آپ ا نے فرمایا کہ تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس کی جو آسمان پر ہے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا، تہبند اٹھائے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ ! اللہ سے ڈریں۔ آپ انے فرمایا، افسوس تجھ پر کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا۔ خالد بن ولید ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپ ا نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو اس پر خالد ؓ نے عرض کیا کہ بہت سے نمازپڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کا حکم نہیں ہواہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہواکہ ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی نے کہا پھر آنحضرت ﷺ نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جارہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر جانور کے پار نکل جاتا ہے اور میر ا خیال ہے کہ آپ ا نے یہ بھی فرمایا، اگر میں ان کے دورمیں ہوا تو ثمود کی قوم کی طرح ان کو با لکل قتل کر ڈالوں گا۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پر ستوں کو چھوڑیں گے۔ یہ پیش گوئی آپ کی پوری ہوئی۔ خارجی جن کے یہی اطوار تھے، حضرت علی ؓ کی خلافت میں ظاہر ہوئے۔ آپ نے ان کو خوب قتل کیا۔ ہمارے زمانہ میں بھی ان خارجیوں کے پیر وموجود ہیں۔ سر منڈے داڑھی نیچی، ازار اونچی، ظاہر میں بڑے متقی پرہیز گار غریب مسلمانوں خصوصاً اہلحدیث کو لامذہب اور وہابی قرار دے کر ان پر حملے کرتے ہیں اور یہودونصاری اور مشرکوں سے برابر کا میل جول رکھتے ہیں۔ ان سے کچھ تعارض نہیں کرتے۔ ہائے افسوس مسلمانوں کو کیا خبط ہوگیا ہے اپنے بھائیوں میں حضرت محمدا کا کلمہ پڑھنے والوں کو تو ایک ایک مسئلہ پر ستائیں اور غیر مسلموں سے دوستی رکھیں۔ ایسے مسلمان قیامت کے دن نبی کریم کو منہ کیا دکھلائیں گے۔ حدیث کے آخری لفظوں کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں پر قرآن کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوگا۔ ہمارے زمانے میں یہی حال ہے۔ قرآن پڑھنے کو تو سینکڑوں آدمی پڑھتے ہیں لیکن اس کے معنی اور مطلب میں غور کرنے والے بہت تھوڑے ہیں اور بعض شیا طین کا تو یہ حا ل ہے کہ وہ قرآن وحدیث کا ترجمہ پڑھنے پڑھانے ہی سے منع کر تے ہیں۔ ﴿أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ﴾(محمد:23)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): ' Ali Ibn Abi Talib (RA) sent a piece of gold not yet taken out of its ore, in a tanned leather container to Allah's Apostle (ﷺ) . Allah's Apostle (ﷺ) distributed that amongst four Persons: 'Uyaina bin Badr, Aqra bin Habis, Zaid Al-Khail and the fourth was either Alqama or Amir bin At Tufail. On that, one of his companions said, "We are more deserving of this (gold) than these (persons)." When that news reached the Prophet (ﷺ) , he said, "Don't you trust me though I am the truth worthy man of the One in the Heavens, and I receive the news of Heaven (i.e. Divine Inspiration) both in the morning and in the evening?" There got up a man with sunken eyes, raised cheek bones, raised forehead, a thick beard, a shaven head and a waist sheet that was tucked up and he said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Be afraid of Allah." The Prophet (ﷺ) said, "Woe to you! Am I not of all the people of the earth the most entitled to fear Allah?" Then that man went away. Khalid bin Al-Wahd said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall I chop his neck off?" The Prophet (ﷺ) said, "No, for he may offer prayers." Khalid said, "Numerous are those who offer prayers and say by their tongues (i.e. mouths) what is not in their hearts." Allah's Apostle (ﷺ) said, "I have not been ordered (by Allah) to search the hearts of the people or cut open their bellies." Then the Prophet (ﷺ) looked at him (i.e. that man) while the latter was going away and said, "From the offspring of this (man there will come out (people) who will recite the Qur'an continuously and elegantly but it will not exceed their throats. (They will neither understand it nor act upon it). They would go out of the religion (i.e. Islam) as an arrow goes through a game's body." I think he also said, "If I should be present at their time I would kill them as the nations a Thamud were killed."