باب:اس بارے میں کہ بے وقت نماز پڑھنا ‘نماز کو ضائع کرنا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Not offering As-Salat (the prayers) at its stated fixed time)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
530.
حضرت امام زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن دمشق میں حضرت انس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: اس وقت رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، ہاں نماز تھی، اسے بھی اب ضائع کیا جا رہا ہے۔ بکر بن خلف نے کہا: ہمیں محمد بن بکر برسانی نے، ان کو عثمان بن ابی درواد نے اسی طرح حدیث بیان کی۔
تشریح:
دوسری روایات میں اس روایت کی کچھ تفصیل نقل ہوئی ہے کہ ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں حجاج بن یوسف عراق کا امیر تھا۔ حضرت انس ؓ نے نمازوں کے متعلق اس کا طرز عمل دیکھا تو حاکم وقت سے اس کی شکایت کرنے کے لیے دمشق پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے دیکھا کہ خود حاکم وقت ولید بن عبدالملک اور اس کے دیگر امراء بھی اوقات نماز کے متعلق تساہل کا شکار ہیں تو حضرت انس ؓ بہت آزردہ خاطر ہوئے اور حالات کی خرابی دیکھ کر رونے لگے لیکن خلفائے بنو امیہ کے اس طرز عمل سے سارا عالم اسلام متاثر نہیں ہوا تھا۔ مدینہ طیبہ میں نمازوں کے اوقات کی پابندی تھی کیونکہ حضرت انس ؓ شام کے سفر سے جب مدینہ منورہ واپس آئے تو انھوں نے اہل مدینہ کو دوران نماز میں تسویۂ صفوف کی طرف متوجہ فرمایا، نیز وہاں کے امیر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ تھے جو اوقات نماز کی پابندی کرتے تھے۔ ان سے ایک دن عصر کی نماز میں تھوڑی سی تاخیر ہوگئی تھی تو عروہ بن زبیر نے ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری ؓ کی روایت سنا کر اوقات نماز کی طرف توجہ دلائی تھی۔ امیر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اسے قبول کر کے اصلاح فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ اہل مدینہ کے متعلق اوقات نماز سے مطمئن تھے، صرف صفوں کو سیدھا کرنے کے سلسلے میں ان سے کوتاہی ہو رہی تھی جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی۔ (فتح الباري:20/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
526
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
530
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
530
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
530
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
نماز کو بروقت ادا کرنے کی فضیلت اور اس کے کفارۂ سیئات ہو نے کی شان بیان کرنے کے بعد اس کے برعکس دوسری صورت کو بیان کیا جارہاہے کہ نماز کو بے وقت ادا کرنا اس قدر سنگین جرم ہے کہ ایسی نماز انعام و کرام کے بجائے نمازی کے لیے باز پرس کا باعث ہو گی،نیز اس سے مراد نماز کو وقت مستحب سے مؤخر کردینا نہیں بلکہ بعد از وقت ادا کرنا ہے۔
حضرت امام زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن دمشق میں حضرت انس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: اس وقت رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی، ہاں نماز تھی، اسے بھی اب ضائع کیا جا رہا ہے۔ بکر بن خلف نے کہا: ہمیں محمد بن بکر برسانی نے، ان کو عثمان بن ابی درواد نے اسی طرح حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایات میں اس روایت کی کچھ تفصیل نقل ہوئی ہے کہ ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں حجاج بن یوسف عراق کا امیر تھا۔ حضرت انس ؓ نے نمازوں کے متعلق اس کا طرز عمل دیکھا تو حاکم وقت سے اس کی شکایت کرنے کے لیے دمشق پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے دیکھا کہ خود حاکم وقت ولید بن عبدالملک اور اس کے دیگر امراء بھی اوقات نماز کے متعلق تساہل کا شکار ہیں تو حضرت انس ؓ بہت آزردہ خاطر ہوئے اور حالات کی خرابی دیکھ کر رونے لگے لیکن خلفائے بنو امیہ کے اس طرز عمل سے سارا عالم اسلام متاثر نہیں ہوا تھا۔ مدینہ طیبہ میں نمازوں کے اوقات کی پابندی تھی کیونکہ حضرت انس ؓ شام کے سفر سے جب مدینہ منورہ واپس آئے تو انھوں نے اہل مدینہ کو دوران نماز میں تسویۂ صفوف کی طرف متوجہ فرمایا، نیز وہاں کے امیر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ تھے جو اوقات نماز کی پابندی کرتے تھے۔ ان سے ایک دن عصر کی نماز میں تھوڑی سی تاخیر ہوگئی تھی تو عروہ بن زبیر نے ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری ؓ کی روایت سنا کر اوقات نماز کی طرف توجہ دلائی تھی۔ امیر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اسے قبول کر کے اصلاح فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ اہل مدینہ کے متعلق اوقات نماز سے مطمئن تھے، صرف صفوں کو سیدھا کرنے کے سلسلے میں ان سے کوتاہی ہو رہی تھی جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی۔ (فتح الباري:20/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبدالواحد بن واصل ابوعبیدہ حداد نے خبر دی، انھوں نے عبدالعزیز کے بھائی عثمان بن ابی رواد کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا کہ میں دمشق میں حضرت انس بن مالک ؓ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔ اور بکر بن خلف نے کہا کہ ہم سے محمد بن بکر برسانی نے بیان کیا کہ ہم سے عثمان بن ابی رواد نے یہی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام ؓ کو نمازوں کا کس قدر اہتمام مدنظر تھا۔ حضرت انس ؓ نے تاخیر سے نماز پڑھنے کو نماز کا ضائع کرنا قرار دیا۔ امام زہری ؒ نے حضرت انس ؓ سے یہ حدیث دمشق میں سنی تھی۔ جب کہ حضرت انس ؓ حجاج کی امارت کے زمانہ میں دمشق کے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے حجاج کی شکایت کرنے آئے تھے کہ وہ نماز بہت دیر کرکے پڑھاتے ہیں۔ ایسے ہی وقت میں ہدایت کی گئی ہے کہ تم اپنی نمازوقت پر ادا کرلو اوربعد میں جماعت سے بھی پڑھ لو تاکہ فتنہ کا وقوع نہ ہو۔ یہ نفل نماز ہوجائے گی۔ مولانا وحیدالزماں صاحب حیدرآبادی نے کیا خوب فرمایا کہ اللہ أکبر جب حضرت انس ؓ کے زمانہ میں یہ حال تھا تو وائے برحال ہمارے زمانے کے اب تو توحید سے لے کر شروع عبادات تک لوگوں نے نئی باتیں اورنئے اعتقاد تراش لیے ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں شان گمان بھی نہ تھا۔ اور اگرکوئی اللہ کا بندہ آنحضرت ﷺ اورصحابہ کرام کے طریق کے موافق چلتا ہے اس پر طرح طرح کی تہمتیں رکھی جاتی ہیں، کوئی ان کو وہابی کہتاہے کوئی لامذہب کہتا ہے۔ إنا للّٰہ وإنا إلیه راجعون۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhri that he visited Anas bin Malik (RA) at Damascus and found him weeping and asked him why he was weeping. He replied, "I do not know anything which I used to know during the life-time of Allah's Apostle (ﷺ) except this prayer which is being lost (not offered as it should be)."