Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: To eat with right hand, and to start with the right side in doing other things)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عمر بن ابی سلمہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے کھا ۔
5380.
سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ممکن حد تک وضو کرنے، جوتا پہننے اور کنگھی کرنے میں دائیں جانب (سے ابتدا کرنے) کو پسند کرتے تھے۔ راوئ حدیث (شعبہ) جب واسط شہر میں تھے تو اس کو یوں بیان کرتے: ہر تکریم والے کام میں آپ ﷺ میں آپ ﷺ اپنی دائیں جانب سے ابتدا کرتے۔
تشریح:
اس حدیث کی وضاحت ہم کتاب الوضوء، باب التیمن(حدیث: 168) میں کر آئے ہیں۔ بہرحال جو کام تکریم کے ہوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دائیں جانب سے شروع کرتے، مثلاً: وضو، غسل وغیرہ۔ علماء نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دائیں جانب اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے پسند کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ دائیں جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعی چیز تھی، اس لیے یہ ادا اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب ہے کیونکہ محب کے لیے محبوب کا فعل بھی محبوب ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5171
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5380
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5380
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5380
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ عنوان مکرر ہے، لیکن ایسا نہیں کیونکہ پہلے عنوان نمبر: 2 کھانے کے عمل سے متعلق تھا کہ اسے دائیں ہاتھ سے کھایا جائے اور مذکورہ عنوان عام ہے جو تمام کاموں کو مشتمل ہے، خواہ ان کا تعلق کھانے سے ہو یا پینے سے، یا کوئی چیز دینے سے، تو اسے دائیں جانب سے شروع کیا جائے۔ (فتح الباری: 9/652)
عمر بن ابی سلمہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے کھا ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ممکن حد تک وضو کرنے، جوتا پہننے اور کنگھی کرنے میں دائیں جانب (سے ابتدا کرنے) کو پسند کرتے تھے۔ راوئ حدیث (شعبہ) جب واسط شہر میں تھے تو اس کو یوں بیان کرتے: ہر تکریم والے کام میں آپ ﷺ میں آپ ﷺ اپنی دائیں جانب سے ابتدا کرتے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی وضاحت ہم کتاب الوضوء، باب التیمن(حدیث: 168) میں کر آئے ہیں۔ بہرحال جو کام تکریم کے ہوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دائیں جانب سے شروع کرتے، مثلاً: وضو، غسل وغیرہ۔ علماء نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دائیں جانب اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے پسند کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ دائیں جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعی چیز تھی، اس لیے یہ ادا اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب ہے کیونکہ محب کے لیے محبوب کا فعل بھی محبوب ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اشعث نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں مسروق نے اوران سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ جہاں تک ممکن ہوتا پاکی حاصل کرنے میں، جوتا پہننے اور کنگھا کرنے میں داہنی طرف سے ابتدا کرتے۔ اشعث اس حدیث کا راوی جب واسط شہر میں تھا تو اس نے اس حدیث میںیوں کہا تھا کہ ہر ایک کام میں حضور ﷺ داہنی طرف سے ابتدا کرتے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کے تر جمہ میں لا پرواہی: آج کل جو تراجم بخاری شریف شائع ہو رہے ہیں ان میں بعض حضرات ترجمہ کرتے وقت اس قدر کھلی غلطی کرتے ہیں جسے لا پرواہی کہنا چاہیئے۔ چنانچہ روایت میں لفظ ''واسط'' سے شہر جہاں راوی کی سکو نت رکھتے تھے مراد ہے مگر برخلاف ترجمہ یوں کیا گیا ہے۔ کہ (اشعث نے واسط کے حوالے سے اس سے پہلے بیان کیا) (دیکھو تفہیم البخاری پارہ: 22 ص: 85) گویا مترجم صاحب کے نزدیک واسط کسی راوی کا نام ہے حالانکہ یہاں شہر واسط مراد ہے جو بصرہ کے قریب ایک بستی ہے۔ شارحین لکھتے ہیں وکان قال بواسط أي کان شعبة قال ببلد واسط في الزمان السابق في شانه کله أي زاد علیه ھذہ الکلمة قال بعض المشائخ القائل بواسط ھو أشعث واللہ أعلم کذا في الکرماني(حاشیہ بخاری ، پارہ: 22 ص 810) یعنی شعبہ نے یہ لفظ کہے تو وہ واسط میں تھے بعض لوگوں نے اس سے اشعث کومراد لیا ہے، واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Prophet (ﷺ) used to love to start doing things from the right side whenever possible, in performing ablution, putting on his shoes, and combing his hair. (Al-Ash'ath said: The Prophet (ﷺ) used to do so in all his affairs.)