باب: بے پر کے تیر یعنی لکڑی گز وغیرہ سے شکار کرنے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: The game killed by the Mi'rad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت ابن عمر صنے غلیلے سے مر جانے والے شکار کے متعلق کہاکہ وہ بھی موقوذہ ( بوجھ کے دباؤ سے مرا ہواہے جو حرام ہے ) اور سالم ، قاسم ، مجاہد ، ابراہیم ، عطاءاورامام حسن بصری رحمہم اللہ اجمعین نے اس کو مکروہ رکھا ہے امام حسن بصری گاؤں اور شہروں میںغلے چلانے کو مکروہ سمجھتے تھے اورانکے سوا دوسری جگہوں ( میدان ، جنگل وغیرہ ) میںکوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے ۔غلہ بازی شکار کرنے کاپرانا طریقہ ہے مگر اس سے اگربستی میں غلہ بازی کی جائے تو بہت سے نقصانات کا بھی خطرہ ہے۔ لہٰذا بستی کے اندر غلیل بازی کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے ہاں جنگلوں میں اس سے شکار کرنا معیوب نہیں ہے۔
5476.
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نوکدار لکڑی سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر عرض کے بل شکار کو لگے اور جانور مر جائے تو وہ موقوذہ ( مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔“ میں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی چھوڑتا ہوں؟ پھر میں اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ شکار تم نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی دوسرے ہر نہیں پڑھی تھی۔“
تشریح:
(1) معراض، اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کا ایک کنارہ تیز ہوتا ہے یا تیز دھار لوہا لگا ہوتا ہے، اگر اس کی نوک یا تیز دھار اسے زخمی کر دے تو ذبیحہ ہے، اسے کھانا جائز ہے۔ اگر شکار کو وہ لکڑی چوڑائی کے بل لگے اور چوٹ لگنے سے وہ مر جائے تو وہ موقوذہ (مردار) کے حکم میں ہے۔ اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ (2) ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ لکڑی کی نوک یا تیز دھار لگنے سے شکار کٹ جاتا ہے جبکہ چوڑائی کے بل لگنے سے شکار کٹتا نہیں بلکہ پھٹ جاتا ہے۔ کٹنے سے خون بہتا ہے تو ذبح کے حکم میں ہے جبکہ جلد پھٹ جانے سے ایسا نہیں ہوتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5266
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5476
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5476
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5476
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
غلیل سے پتھر پھینک کر اگر شکار کیا جائے اور وہ مر جائے تو ایسا شکار کھانا جائز نہیں کیونکہ وہ پھینکنے والے کی قوت سے شکار کو زخمی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ جہاں کہیں ہجوم اور آبادی ہو وہاں غلیل سے غلیلہ پھینکنے کو مکروہ خیال کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ کسی شخص کو زخمی کر دے۔ اس کی ممانعت حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں پھینکنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ کنکری نہ تو شکار مار سکتی ہے اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے۔ (صحیح البخاری، الادب، حدیث؛ 6220)
اور حضرت ابن عمر صنے غلیلے سے مر جانے والے شکار کے متعلق کہاکہ وہ بھی موقوذہ ( بوجھ کے دباؤ سے مرا ہواہے جو حرام ہے ) اور سالم ، قاسم ، مجاہد ، ابراہیم ، عطاءاورامام حسن بصری رحمہم اللہ اجمعین نے اس کو مکروہ رکھا ہے امام حسن بصری گاؤں اور شہروں میںغلے چلانے کو مکروہ سمجھتے تھے اورانکے سوا دوسری جگہوں ( میدان ، جنگل وغیرہ ) میںکوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے ۔غلہ بازی شکار کرنے کاپرانا طریقہ ہے مگر اس سے اگربستی میں غلہ بازی کی جائے تو بہت سے نقصانات کا بھی خطرہ ہے۔ لہٰذا بستی کے اندر غلیل بازی کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے ہاں جنگلوں میں اس سے شکار کرنا معیوب نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نوکدار لکڑی سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر عرض کے بل شکار کو لگے اور جانور مر جائے تو وہ موقوذہ ( مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔“ میں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی چھوڑتا ہوں؟ پھر میں اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ شکار تم نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی دوسرے ہر نہیں پڑھی تھی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) معراض، اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کا ایک کنارہ تیز ہوتا ہے یا تیز دھار لوہا لگا ہوتا ہے، اگر اس کی نوک یا تیز دھار اسے زخمی کر دے تو ذبیحہ ہے، اسے کھانا جائز ہے۔ اگر شکار کو وہ لکڑی چوڑائی کے بل لگے اور چوٹ لگنے سے وہ مر جائے تو وہ موقوذہ (مردار) کے حکم میں ہے۔ اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ (2) ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ لکڑی کی نوک یا تیز دھار لگنے سے شکار کٹ جاتا ہے جبکہ چوڑائی کے بل لگنے سے شکار کٹتا نہیں بلکہ پھٹ جاتا ہے۔ کٹنے سے خون بہتا ہے تو ذبح کے حکم میں ہے جبکہ جلد پھٹ جانے سے ایسا نہیں ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمرؓنے غلیلے سے مرے ہوئے شکار کے متعلق فرمایا کہ وہ موقوذہ ہے۔ حضرت سالم، قاسم، مجاہد، ابراہیم نخعی، عطاء اور حسن بصری نے شہروں اور دیہاتوں میں غلیلہ پھینکنے کو مکروہ خیال کیا ہے ان کے علاوہ دیگر مقامات میں کوئی حرج نہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی سفر نے، ان سے شعبی نے کہا کہ میں نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بے پر کے تیر یا لکڑی کے گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگراس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے اور اس سے وہ مرجائے تو وہ موقوذہ (مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔ میں نے سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی (شکار کے لیے) دوڑاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ جب تم اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھ کرشکار کے پیچھے دوڑاؤ تو وہ شکار کھا سکتے ہو۔ میں نے پوچھا اور اگر وہ کتا شکار میں سے کھا لے؟ آپ نے فرمایا کہ پھر نہ کھاؤ کیونکہ وہ شکار اس نے تمہارے لیے نہیں پکڑا تھا، صرف اپنے لیے پکڑا تھا۔ میں نے پوچھا میں بعض وقت اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور بعد میں اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ پھر (اس کا شکار) نہ کھاؤ کیونکہ تم نے بسم اللہ صرف ا پنے کتے پر پڑھی ہے، دوسرے پر نہیں پڑھی ہے۔
حدیث حاشیہ:
غلہ وہ ہے جو غلیل میں رکھ کر پھینکا جاتا ہے جو اپنے بوجھ سے جانور کو مارتا اور وہ گوشت کو چیرتا نہیں ہے۔ مولانا وحید الزماں مرحوم نے بندوق کا مارا ہوا شکار حلال کہا ہے کیونکہ بندوق کی گولی گوشت کو چیر کر اندر گھس جاتی ہے۔ جمہور علماء کا فتویٰ یہی ہے کہ جب دوسرا کتا اس میں شریک ہو جائے تو اس کا کھانا درست نہیں ہے۔ بہت سے علماء بندوق کا شکار، جبکہ وہ ذبح سے پہلے مر جائے اسے حلال نہیں مانتے۔ احتیاط اسی میں ہے، واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Adi bin Hatim (RA) : I asked Allah's Apostle (ﷺ) about the Mi'rad. He said, "If you hit the game with its sharp edge, eat it, but if the Mi'rad hits the game with its shaft with a hit by its broad side do not eat it, for it has been beaten to death with a piece of wood. (i.e. unlawful)." I asked, "If I let loose my trained hound after a game?" He said, "If you let loose your trained hound after game, and mention the name of Allah, then you can eat." I said, "If the hound eats of the game?" He said "Then you should not eat of it, for the hound has hunted the game for itself and not for you." I said, "Some times I send my hound and then I find some other hound with it?" He said "Don't eat the game, as you have mentioned the Name of Allah on your dog only and not on the other."