باب: ذبح پر بسم اللہ پڑھنا اور جس نے اسے قصداً چھوڑ دیا ہو ا س کا بیان ۔
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: Mentioning Allah's Name on slaughtering an animal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عباس ؓنے کہا کہ اگر کوئی بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور نہ کھاؤ اس جانور کو جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بلا شبہ یہ نا فرمانی ہے اور ( کوئی نیک کام ) بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جا سکتا “ اور اللہ تعالیٰ کا قرآن میں فرمان اور بےشک شیاطین اپنے دوستوں کو پٹی پڑھاتے ہیں تاکہ وہ تم سے کٹ حجتی کریں اور اگر تم ان کا مانو گے تو البتہ تم بھی مشرک ہو جاؤ گے ۔تشریح : گویا یہ آیت لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو قوت دی کہ اگر بھول سے بسم اللہ ترک کرے تو جانور حلال ہی رہے گا کیونکہ بھول سے ترک کرنے والا نہ شیطان کا دوست ہو سکتا ہے نہ مشرک ہو سکتا ہے۔
5498.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم مقام ذوالحلیفہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ لوگوں کو بھوک نے بہت پریشان کیا۔ اس دوران میں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں بطور غنیمت ملیں۔ نبی ﷺ پیچھے تشریف لا رہے تھے کہ لوگوں نے بھوک کی شدت کی وجہ سے جلدی کی اور گوشت ہنڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ جلدی سے ان کے پیچھے آئے اور ہنڈیوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں الٹ دیا گیا، پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی، اس لیے لوگ خود ہی اس کے پیچھے بھاگے لیکن اس نے ان کو تھکا دیا۔ آخر ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ان جانوروں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں اسلیے جب کوئی جانور مارے وحشت کے بھاگ نکلے تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو۔“ اس لیے جب کوئی جانور مارے وحشت کے بھاگ نکلے تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو۔ سیدنا رافع ؓ نے عرض کی: ہمیں امید یا اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں تو کیا ہم بانس کی پھاٹک سے ذبح کر لیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو چیز (جانور کا) خون پہادے اور اس پر اللہ کا نام ذکر کیا جائے تو اسے کھالو، البتہ دانت اور ناخن ذبح کا آلہ نہیں ہونا چاہیے اسکی وجہ میں تم سے ابھی بیان کرتا ہوں: دانت تو اس لیے کہ یہ ہڈی ہے اور ناخن اس لیے حبشی لوگ اسے بطور چھری استعمال کرتے ہیں۔
تشریح:
(1) حدیث میں ذوالحلیفہ سے مراد وہ مقام نہیں جو مدینہ طیبہ کے پاس ہے اور بئر علی کے نام سے مشہور ہے بلکہ یہ تہامہ کی زمین میں مکے اور طائف کے درمیان کی اور جگہ ہے۔ اس مقام پر جو اونٹ اور بکریاں بطور غنیمت ملے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھوک کی وجہ سے تقسیم سے پہلے انہیں ذبح کر کے ان کی ہانڈیاں چڑھا دیں تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا۔ (2) اس حدیث میں ہے کہ جب جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اور کسی بھی تیز دھار آلے سے اس کا خون بہا دیا جائے تو اس کا کھانا جائز ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر بھول کر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو جانور حلال ہے۔ (4) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت اور ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ دانت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ یہ ایک ہڈی ہے، اس سے اگر ذبح کیا جائے تو جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا، اسی طرح ناخن سے ذبح کرنے میں بھی جانور کو تکلیف ہوتی ہے اور اس سے جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ذبح کے احکام بیان کرنا شروع کیے ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5287
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5498
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5498
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5498
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے لیکن اگر کوئی بھول کی وجہ سے، ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لے سکے تو کیا اس کا ذبح کردہ جانور جائز ہے یا نہیں، اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ ہے کہ بھول کر اگر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے تو قابل معافی ہے اور ایسا ذبیحہ جائز ہے۔ انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالہ دیا ہے، پھر انہوں نے آیت کریمہ سے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے کہ اگر ذبح کرتے وقت بھول کر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے تو جانور حلال ہی رہے گا کیونکہ بھول کر اللہ تعالیٰ کا نام چھوڑنے والا نہ تو شیطان کا دوست بنتا ہے اور نہ اسے مشرک ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
ابن عباس ؓنے کہا کہ اگر کوئی بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور نہ کھاؤ اس جانور کو جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور بلا شبہ یہ نا فرمانی ہے اور ( کوئی نیک کام ) بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جا سکتا “ اور اللہ تعالیٰ کا قرآن میں فرمان اور بےشک شیاطین اپنے دوستوں کو پٹی پڑھاتے ہیں تاکہ وہ تم سے کٹ حجتی کریں اور اگر تم ان کا مانو گے تو البتہ تم بھی مشرک ہو جاؤ گے ۔تشریح : گویا یہ آیت لاکر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قول کو قوت دی کہ اگر بھول سے بسم اللہ ترک کرے تو جانور حلال ہی رہے گا کیونکہ بھول سے ترک کرنے والا نہ شیطان کا دوست ہو سکتا ہے نہ مشرک ہو سکتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم مقام ذوالحلیفہ میں نبی ﷺ کے ساتھ تھے کہ لوگوں کو بھوک نے بہت پریشان کیا۔ اس دوران میں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں بطور غنیمت ملیں۔ نبی ﷺ پیچھے تشریف لا رہے تھے کہ لوگوں نے بھوک کی شدت کی وجہ سے جلدی کی اور گوشت ہنڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ جلدی سے ان کے پیچھے آئے اور ہنڈیوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں الٹ دیا گیا، پھر آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی، اس لیے لوگ خود ہی اس کے پیچھے بھاگے لیکن اس نے ان کو تھکا دیا۔ آخر ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اللہ تعالٰی نے اسے روک دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ان جانوروں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں اسلیے جب کوئی جانور مارے وحشت کے بھاگ نکلے تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو۔“ اس لیے جب کوئی جانور مارے وحشت کے بھاگ نکلے تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو۔ سیدنا رافع ؓ نے عرض کی: ہمیں امید یا اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں تو کیا ہم بانس کی پھاٹک سے ذبح کر لیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو چیز (جانور کا) خون پہادے اور اس پر اللہ کا نام ذکر کیا جائے تو اسے کھالو، البتہ دانت اور ناخن ذبح کا آلہ نہیں ہونا چاہیے اسکی وجہ میں تم سے ابھی بیان کرتا ہوں: دانت تو اس لیے کہ یہ ہڈی ہے اور ناخن اس لیے حبشی لوگ اسے بطور چھری استعمال کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں ذوالحلیفہ سے مراد وہ مقام نہیں جو مدینہ طیبہ کے پاس ہے اور بئر علی کے نام سے مشہور ہے بلکہ یہ تہامہ کی زمین میں مکے اور طائف کے درمیان کی اور جگہ ہے۔ اس مقام پر جو اونٹ اور بکریاں بطور غنیمت ملے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھوک کی وجہ سے تقسیم سے پہلے انہیں ذبح کر کے ان کی ہانڈیاں چڑھا دیں تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا۔ (2) اس حدیث میں ہے کہ جب جانور پر اللہ کا نام لیا جائے اور کسی بھی تیز دھار آلے سے اس کا خون بہا دیا جائے تو اس کا کھانا جائز ہے۔ (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے کہ ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر بھول کر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو جانور حلال ہے۔ (4) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت اور ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ دانت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ یہ ایک ہڈی ہے، اس سے اگر ذبح کیا جائے تو جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا، اسی طرح ناخن سے ذبح کرنے میں بھی جانور کو تکلیف ہوتی ہے اور اس سے جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ذبح کے احکام بیان کرنا شروع کیے ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓنےے فرمایا: اگر کوئی ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو کوئی حرج نہیں
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اور اس جانور کو نہ کھاؤ جس ہر ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، بلاشبہ یہ نافرمانی ہے۔“ بھولنے والے کو فاسق نہیں کہا جاسکتا۔ نیز ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اور شیاطین تو اپنے دوستوں کے دلوں میں(مشکوک و شبہات) القا کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑتے رہیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم بھی مشرک ہی ہوئے۔“
وضاحت: ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے لیکن اگر کوئی بھول کی وجہ سے اللہ کا نام زبح کے وقت نہ لے سکے تو کیا اس کا ذبح کردہ جانور جائز ہے یا نہیں اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ ہے کہ بھول کر اگر اللہ کا نام لیا جائے تو قابل معافی ہے اور ایسا ذبیحہ جائز ہے انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کا حوالہ دیا ہے پھر انہوں نے آیت کریمہ سے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے اگر ذبح کرتے وقت بھول کر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو وہ جانور حلال ہی رہے گا کیونکہ بھول کر اللہ کا نام ترک کرنے والا نہ تو شیطان کا دوست بنتا ہے اور نہ اسے مشرک ہی قرار دیا جاسکتا ہے واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
مجھ سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع نے اپنے دادا رافع بن خدیج سے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ مقام ذی الحلیفہ میں تھے کہ (ہم) لوگ بھوک اور فاقہ میں مبتلا ہو گئے پھر ہمیں (غنیمت میں) اونٹ اور بکریاں ملیں۔ آنحضرت ﷺ سب سے پیچھے تھے۔ لوگوں نے جلدی کی بھوک کی شدت کی وجہ سے (اور آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے ہی غنیمت کے جانوروں کوذبح کر لیا) اور ہانڈیاں پکنے کے لیے چڑھا دیں پھر جب آنحضرت ﷺ وہاں پہنچے تو آپ نے حکم دیا اور ہانڈیاں الٹ دی گئیں پھر آنحضرت ﷺ نے غنیمت کی تقسیم کی اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برا بر قرار دیا۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ گیا۔ قوم کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی لوگ اس اونٹ کے پیچھے دوڑے لیکن اس نے سب کو تھکا دیا۔ آخر ایک شخص نے اس پر تیر کا نشانہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان جانوروں میں جنگلیوں کی طرح وحشت ہوتی ہے۔ اس لیے جب کوئی جانور بھڑک کر بھاگ جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ عبایہ نے بیان کیا کہ میرے دادا (رافع بن خدیج ؓ ) نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ کل ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو گا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم (دھاردار) لکڑی سے ذبح کر لیں۔ آپ نے فرمایا کہ جو چیز بھی خون بہا دے اور (ذبح کرتے وقت) جانور پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھاؤ البتہ (ذبح کرنے والا آلہ) دانت اور ناخن نہ ہونا چاہیئے۔ دانت اس لیے نہیں کہ یہ ہڈی ہے (اور ہڈی سے ذبح کرنا جائز نہیں ہے) اور ناخن کا اس لیے نہیں کہ حبشی لوگ ان کو چھری کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس باب کا مطلب اس لفظ سے نکلتا ہے ''و اذکر اسم اللہ علیه''۔ حنفیہ نے اس ناخون اور دانت سے ذبح جائز رکھا ہے جو آدمی کے بدن سے جدا ہو مگر یہ صحیح نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi bin Khadij (RA) : We were with the Prophet (ﷺ) in Dhul-Hulaifa and there the people were struck with severe hunger. Then we got camels and sheep as war booty (and slaughtered them). The Prophet (ﷺ) was behind all the people. The people hurried and fixed the cooking pots (for cooking) but the Prophet (ﷺ) came there and ordered that the cooking pots be turned upside down. Then he distributed the animals, regarding ten sheep as equal to one camel. One of the camels ran away and there were a few horses with the people. They chased the camel but they got tired, whereupon a man shot it with an arrow whereby Allah stopped it. The Prophet (ﷺ) said, "Among these animals some are as wild as wild beasts, so if one of them runs away from you, treat it in this way." I said. "We hope, or we are afraid that tomorrow we will meet the enemy and we have no knives, shall we slaughter (our animals) with canes?" The Prophet (ﷺ) said, "If the killing tool causes blood to gush out and if Allah's Name is mentioned, eat (of the slaughterer animal). But do not slaughter with a tooth or a nail. I am telling you why: A tooth is a bone, and the nail is the knife of Ethiopians."