باب: س بیان میں کہ جو پالتو جانور بدک جائے وہ جنگلی جانور کے حکم میں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Hunting, Slaughtering
(Chapter: Any domestic animal that runs away, should be treated like a wild animal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن مسعود ؓنے بھی اس کی اجازت دی ہے ۔ ابن عباس ؓنے کہا کہ جو جانور تمہارے قابو میں ہونے کے باوجود تمہیں عاجز کردے ( اور ذبح نہ کرنے دے ) وہ بھی شکار ہی کے حکم میں ہے اور ( فرمایاکہ ) اونٹ اگر کنوئیں میں گر جائیں تو جس طرف سے ممکن ہو اسے ذبح کر لو ۔ علی ، ابن عمر اور عائشہؓ کا یہ فتویٰ ہے ۔
5509.
سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم کل دشمن سے مقابلہ کریں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”پھر جلدی کر لو، جو آلہ بھی خون بہانے والا دستیاب ہو جائے (اس سے ذبح کر لو) اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھاؤ البتہ دانت یا ناخن سے ذبح نہ کیا جائے اور اس کی وجہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ ہمیں ایک غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا تو ایک آدمی نے اسے تیر سے مار گرایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدک کر بھاگ نکلتے ہیں اس لیے اگر ان سے کوئی تمہارے قابو سے باہر ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہى سلوک کرو۔“
تشریح:
بے بسی اور مجبوری کی حالت میں جب ذبح کی مہلت نہ ملے اور کہیں سے بھی خون بہہ جائے تو وہ ذبح کے معنی میں ہو گا جیسا کہ شکار میں ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی نے سوال کیا: اللہ کے رسول! کیا جانور کا ذبح کرنا نرخرے یا حلق ہی سے ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو اس کی ران میں بھی کوئی تیر وغیرہ مارے تو کافی ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2825، و إرواء الغلیل: 168/1، رقم: 2535) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم اس کے متعلق امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ صورت صرف اس جانور میں ہے جو کہیں نیچے جا گرا ہو یا وحشی بن گیا ہو۔ بہرحال بے بسی کی حالت میں جانور کو کسی بھی جگہ سے ذبح کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5298
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5509
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5509
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5509
تمہید کتاب
ذبائح، ذبيحة کی جمع ہے اور ذبیحہ وہ جانور ہے جو کسی کی ملکیت ہو اور حلال ہو اسے ذبح کر کے اس کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ صید کا لفظ مصدر ہے جس کے معنی ہیں: شکار کرنا اور کبھی اس کا اطلاق اس جانور پر ہوتا ہے جسے شکار کیا جاتا ہے۔ شکار ہر اس حلال جنگلی جانور کو کہتے ہیں جو کسی کی ملکیت و قبضے میں نہ ہو۔ اس عنوان کے تحت ذبائح اور شکار کے احکام بیان ہوں گے۔ دراصل کسی جانور کے حلال و حرام ہونے کے متعلق یہ اصول ہے کہ ہر جانور حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی جانور کے حلال ہونے کے لیے صرف دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: وہ پاکیزہ ہو اور اس کے اندر کسی بھی پہلو سے خباثت نہ ہو۔ جانور کی خباثت مندرجہ ذیل چیزوں سے معلوم کی جا سکتی ہے: ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر خبیث قرار دیا ہو، مثلاً: گھریلو گدھے۔ ٭ ہر وہ پرندہ جو چنگال والا ہو، یعنی پنجے سے شکار کرے اور پنجے سے پکڑ کر کھائے، جیسے: باز اور شکرا۔ ٭ جس کی خباثت معروف ہو، جیسے: چوہا، سانپ اور بچھو وغیرہ۔ ٭ جس کے قتل سے منع کیا گیا ہو، مثلاً: بلی یا جس کے قتل کا حکم دیا گیا ہو، جیسے: چیل۔ ٭ جس جانور کے متعلق مشہور ہو کہ وہ مردار کھاتا ہے، مثلاً: گِدھ۔ ٭ جسے ناجائز طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، مثلاً: کافر کا ذبیحہ یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔ ان کے علاوہ جتنے بھی جانور ہیں وہ سب حلال ہیں۔ اس اصول کو فقہی زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: "ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔" پہلے لوگوں کا یہ ذہن تھا کہ حلال صرف وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت ہو لیکن ہمارے لیے حلال اشیاء کا دائرہ بہت وسیع کر دیا گیا ہے، یعنی ہمارے لیے وہ تمام جانور حلال ہیں جن میں خباثت نہیں پائی جاتی اور جو درج بالا اصولوں کی زد میں نہیں آتے۔ واضح رہے کہ حلال جانور کا خون حرام ہے۔ خون سے مراد وہ خون ہے جو ذبح کرتے وقت بہتا ہے۔ اور کچھ خارجی اسباب ایسے ہیں جن کی وجہ سے حلال جانور حرام ہو جاتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے: ٭ جو جانور طبعی موت مر جائے اور اسے ذبح نہ کیا جائے۔ ٭ جس جانور پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو۔ ٭ وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے چھڑی یا لاٹھی ماری جائے اور وہ مر جائے۔ ٭ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مر جائے۔ ٭ جو جانور دوسرے جانور کے سینگ مارنے سے مر جائے۔ ٭ وہ جانور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو۔ ٭ وہ جانور جسے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، خواہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو۔ پھر شرعی ذبح کی تین شرطیں حسب ذیل ہیں؛ ٭ چھری پھیرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بصورت دیگر وہ جانور حلال نہیں ہو گا۔ ٭ ذبح کرنے والا شخص مسلمان ہو یا اہل کتاب سے ہو۔ ٭ شرعی طریقے سے ذبح کرتے ہوئے جانور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ذبح، ذبیحہ اور شکار وغیرہ کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ترانوے (93) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکیس (21) معلق اور بہتر (72) متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اناسی (79) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ چھ (6) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی چوالیس (44) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر اڑتیس (38) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے قوت استنباط اور قوت فہم کی ایک مثال قائم کی ہے۔ چند ایک عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ شکار پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ تیر کمان سے شکار کرنا۔ ٭ جب کتا شکار میں سے خود کھا لے۔ ٭ جب شکار کیا ہوا جانور دو یا تین دن بعد ملے۔ ٭ شکاری جب اپنے شکار کے پاس دوسرا کتا دیکھے۔ ٭ بطور مشغلہ شکار کرنا۔ ٭ پہاڑوں پر شکار کرنا۔ ٭ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ گھوڑوں کا گوشت۔ ٭ پالتو گدھوں کا گوشت۔ ٭ مجبور شخص کا مردار کھانا۔ ہم نے احادیث اور عنوانات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر تشریحی نوٹس بھی دیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی ہوئی احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے ہمراہ اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حلال جانور قابو سے باہر ہو جائے اور بسم اللہ پڑھ کر اسے تیر وغیرہ سے گرا لیا جائے تو وہ حلال ہے کیونکہ وہ وحشی جانوروں کے حکم میں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بات کے دو مفہوم ہیں: ٭ ہاتھوں میں ہونے کے باوجود دوسرے کو ذبح کرنے سے عاجز کر دے۔ ٭ ہاتھوں سے بھاگ جائے اور پکڑا نہ جا سکے۔ دونوں صورتوں میں وہ شکار کی طرح ہے۔ اسے بسم اللہ پڑھ کر تیر مارا جائے، اگر ڈھیر ہو جائے تو حلال ہے۔ کنویں میں گرنے والا اونٹ بھی اسی حکم میں ہے۔
ابن مسعود ؓنے بھی اس کی اجازت دی ہے ۔ ابن عباس ؓنے کہا کہ جو جانور تمہارے قابو میں ہونے کے باوجود تمہیں عاجز کردے ( اور ذبح نہ کرنے دے ) وہ بھی شکار ہی کے حکم میں ہے اور ( فرمایاکہ ) اونٹ اگر کنوئیں میں گر جائیں تو جس طرف سے ممکن ہو اسے ذبح کر لو ۔ علی ، ابن عمر اور عائشہؓ کا یہ فتویٰ ہے ۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم کل دشمن سے مقابلہ کریں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”پھر جلدی کر لو، جو آلہ بھی خون بہانے والا دستیاب ہو جائے (اس سے ذبح کر لو) اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھاؤ البتہ دانت یا ناخن سے ذبح نہ کیا جائے اور اس کی وجہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن اہل حبشہ کی چھری ہے۔“ ہمیں ایک غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں۔ ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا تو ایک آدمی نے اسے تیر سے مار گرایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدک کر بھاگ نکلتے ہیں اس لیے اگر ان سے کوئی تمہارے قابو سے باہر ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہى سلوک کرو۔“
حدیث حاشیہ:
بے بسی اور مجبوری کی حالت میں جب ذبح کی مہلت نہ ملے اور کہیں سے بھی خون بہہ جائے تو وہ ذبح کے معنی میں ہو گا جیسا کہ شکار میں ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی نے سوال کیا: اللہ کے رسول! کیا جانور کا ذبح کرنا نرخرے یا حلق ہی سے ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو اس کی ران میں بھی کوئی تیر وغیرہ مارے تو کافی ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2825، و إرواء الغلیل: 168/1، رقم: 2535) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم اس کے متعلق امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ صورت صرف اس جانور میں ہے جو کہیں نیچے جا گرا ہو یا وحشی بن گیا ہو۔ بہرحال بے بسی کی حالت میں جانور کو کسی بھی جگہ سے ذبح کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو جانور تمہارے ہاتھوں میں ہونے کے باوجود تمہیں عاجز کردے وہ شکار کے حکم میں ہے اسی طرح اونٹ اگر کنویں میں گر جائے تو جس طرف سے ممکن ہو اسے ذبح کرلو۔ حضرت علی۔ حضرت ابن عمراور سیدہ عائشہ ؓکا بھی یہی فتویٰ ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج نے اور ان سے رافع بن خدیج ؓ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! کل ہمارا مقابلہ دشمن سے ہوگا اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ پھر جلدی کر لو یا (اس کے بجائے) ''ارن'' کہا یعنی جلدی کر لو جو آلہ خون بہا دے اور ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ۔ البتہ دانت اور ناخن نہ ہونا چاہیئے اور اس کی وجہ بھی بتا دوں۔ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ اور ہمیں غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا تو ایک صاحب نے تیر سے سے مار کر گرا لیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے بھی کوئی تمہارے قابو سے باہر ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔
حدیث حاشیہ:
ایسا اونٹ یا کوئی اور حلال جانور اگر قابو سے باہر ہو جائے توا سے تیر وغیرہ سے بسم اللہ پڑھ کر گرا لیا جائے تو وہ حلال ہے۔ روایت میں مذکور ہ لفظ ''ارن'' راء کے کسرہ اور نون کے جزم کے ساتھ ہے۔ فراجع النووي أن ارن بمعنی اعجل یعنی ذبح کرتے وقت جلدی کرو تا کہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔ (فتح)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi bin Khadij (RA) : I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We are going to face the enemy tomorrow and we do not have knives." He said, "Hurry up (in killing the animal). If the killing tool causes blood to flow out, and if Allah's Name is mentioned, eat (of the slaughtered animal). But do not slaughter with a tooth or a nail. I will tell you why: As for the tooth, it is a bone; and as for the nail, it is the knife of Ethiopians." Then we got some camels and sheep as war booty, and one of those camels ran away, whereupon a man shot it with an arrow and stopped it. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Of these camels there are some which are as wild as wild beasts, so if one of them (runs away and) makes you tired, treat it in this manner."