Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: Meat is desired on the day of Nahr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5549.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کی وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا۔ اللہ کے رسول! اس دن گوشت کی خواہش کی جاتی ہے اور اس نے اپنے ہمسایوں کی غربت کا ذکر کیا، اب تو میرے پاس یکسالہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے آپ ﷺ نے اس کو رخصت دی کہ وہی ذبح کر دے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں؟ اس نے بعد نبی ﷺ دو میںڈھوں کی طرف مائل ہوئے اور انہیں ذبح کیا اور لوگ بھی بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں تقسیم کر کے ذبح کیا۔
تشریح:
(1) عید کے دن گوشت کی خواہش رکھنا خلوص اور للہیت کے منافی نہیں، لیکن اس خواہش اور چاہت کو پورا کرنے کے لیے شریعت کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اپنے پڑوسیوں کی غربت و محتاجی کا خیال رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے لیکن شریعت کے اندر رہتے ہوئے ان سے غم گساری کی جائے۔ (2) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں، یہ رخصت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں جبکہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ ایک سالہ بکری کے بچے کی قربانی حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کے لیے تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا تھا: ’’تیرے بعد ایسا کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5556) شاید حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد نہ سن سکے ہوں۔ (فتح الباري: 10/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5337
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5549
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5549
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5549
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کی وہ دوبارہ قربانی کرے۔“ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا۔ اللہ کے رسول! اس دن گوشت کی خواہش کی جاتی ہے اور اس نے اپنے ہمسایوں کی غربت کا ذکر کیا، اب تو میرے پاس یکسالہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے آپ ﷺ نے اس کو رخصت دی کہ وہی ذبح کر دے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں؟ اس نے بعد نبی ﷺ دو میںڈھوں کی طرف مائل ہوئے اور انہیں ذبح کیا اور لوگ بھی بکریوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں تقسیم کر کے ذبح کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) عید کے دن گوشت کی خواہش رکھنا خلوص اور للہیت کے منافی نہیں، لیکن اس خواہش اور چاہت کو پورا کرنے کے لیے شریعت کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اپنے پڑوسیوں کی غربت و محتاجی کا خیال رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے لیکن شریعت کے اندر رہتے ہوئے ان سے غم گساری کی جائے۔ (2) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں، یہ رخصت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں جبکہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ ایک سالہ بکری کے بچے کی قربانی حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کے لیے تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا تھا: ’’تیرے بعد ایسا کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہو گا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5556) شاید حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد نہ سن سکے ہوں۔ (فتح الباري: 10/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن علیہ نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں محمد بن سیرین نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے قربانی کے دن فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی ہے وہ دوبارہ قربانی کرے اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! یہ وہ دن ہے جس میں گوشت کھانے کی خواہش ہوتی ہے پھر انہوں نے اپنے پڑوسیوں کا ذکر کیا اور (کہا کہ) میرے پاس ایک سا ل سے کم کا بکری کا بچہ ہے جس کا گوشت دو بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے تو آنحضرت ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں۔ پھر آنحضرت ﷺ دو مینڈھوں کی طرف مڑے اور انہیں ذبح کیا پھر لوگ بکریوں کی طرف بڑھے اور انہیں تقسیم کر کے (ذبح کیا)
حدیث حاشیہ:
حضرت محمد بن سیرین حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ ہیں۔ یہ فقیہ عالم عابد و زاہد و متقی ومشہور محدث تھے۔ لوگ ان کو دیکھتے تو اللہ یاد آ جاتا تھا۔ موت کے ذکر سے ان کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ مشہور جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ سنہ110ھ میں بعمر 77سال وفات پائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) said on the day of Nahr, "Whoever has slaughtered his sacrifice before the prayer, should repeat it (slaughter another sacrifice)." A man got up and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! This is a day on which meat is desired." He then mentioned his neighbors saying, "I have a six month old ram which is to me better than the meat of two sheep." The Prophet (ﷺ) allowed him to slaughter it as a sacrifice, but I do not know whether this permission was valid for other than that man or not. The Prophet (ﷺ) then went towards two rams and slaughtered them, and then the people went towards some sheep and distributed them among themselves.