باب: نماز عشاء کا وقت جب لوگ (جلدی) جمع ہو جائیں یا جمع ہونے میں دیر کر دیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The time of the Isha prayer. If the people get together (pray earlier), and if they come late (delay it))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
565.
حضرت محمد بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے نبی ﷺ کی نمازوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: نبی ﷺ ظہر کی نماز عین دوپہر کے وقت پڑھتے تھے اور عصر ایسے وقت میں پڑھ لیتے کہ سورج ابھی تاب دار (روشن) ہوتا، نماز مغرب غروب آفتاب کے فورا بعد پڑھ لیتے اور عشاء کی نماز کے لیے اگر اکثر مقتدی آ جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور اگر حاضرین کی تعداد کم ہوتی تو مؤخر کر دیتے اور نماز صبح اندھیرے میں پڑھتے تھے۔
تشریح:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اول وقت میں نماز ادا کی جائےتو بھی عشاء اور اگر آخر وقت میں ادا کی جائے تب بھی، یعنی تقدیم وتاخیر سے اس کے نام میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، نیز عشاء کےلیے اول وآخر دونوں وقت پسندیدہ ہیں۔ اس میں نمازی حضرات کا خیال رکھنا ہوگا، اگر وہ جلدی آجائیں تو اول وقت میں اسے پڑھ لیاجائے، بصورت دیگر کچھ مؤخر کردیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نمازیوں کی سہولت اور انتظامی امور کے لیے جواوقات مقرر کیے جاتے ہیں وہ صحیح نہیں بلکہ اگر اوقات مقرر نہ ہوں تو نمازیوں کے لیے پریشانی میں اضافے کا باعث ہے۔ البتہ امام بخاری ؒ اس حدیث کے پیش نظر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز عشاء کےلیے اول وقت کا انتخاب نہیں تھا بلکہ حسب ضرورت اس میں تقدیم و تاخیرکی جاتی تھی، چنانچہ علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ نماز عشاء کےلیے لوگوں کے جمع ہونے کا انتظار کرنا مستحب ہے اور جب جمع ہوجائیں تو بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ (شرح الکرماني:209/2) نماز عشاء کی تاخیر کے متعلق کہ اسے تہائی رات، نصف رات یا طلوع فجر تک مؤخر کیا جاسکتا ہے، اس کا بیان آئندہ آئے گا۔ بإذن الله.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
559
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
565
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
565
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
565
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ اس عنوان کے متعلق شراح کی مختلف آراء ہیں:٭اس موقف کی تردید مقصود ہے کہ اگر عشاء کو جلدی پڑھا جائے تو عشاءاور اگر تاخیر سے ادا کیا جائے تو اسے عتمہ کہاجائے گا۔(فتح الباری:2/63.)٭پسندیدہ وقت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ اگر نمازی جمع ہوجائیں تواول وقت میں اسے ادا کرنا پسندیدہ ہے اور اگر جمع ہونے میں دیر کریں تو تاخیر سے پڑھنا بہتر ہے۔٭نماز عشاء اور نماز مغرب میں فرق بیان کرنا مقصود ہے کہ نماز مغرب کوتواول وقت ادا کرلینا چاہیے،البتہ بوقت ضرورت اسے مؤخر کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے برعکس نماز عشاء کا ایک وقت نہیں بلکہ اول وقت پڑھنا بھی صحیح ہے اور تہائی رات یا نصف رات تک مؤخر کرنا بھی درست ہے۔ (عمدۃ القاری:4/88.)
حضرت محمد بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے نبی ﷺ کی نمازوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: نبی ﷺ ظہر کی نماز عین دوپہر کے وقت پڑھتے تھے اور عصر ایسے وقت میں پڑھ لیتے کہ سورج ابھی تاب دار (روشن) ہوتا، نماز مغرب غروب آفتاب کے فورا بعد پڑھ لیتے اور عشاء کی نماز کے لیے اگر اکثر مقتدی آ جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور اگر حاضرین کی تعداد کم ہوتی تو مؤخر کر دیتے اور نماز صبح اندھیرے میں پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اول وقت میں نماز ادا کی جائےتو بھی عشاء اور اگر آخر وقت میں ادا کی جائے تب بھی، یعنی تقدیم وتاخیر سے اس کے نام میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، نیز عشاء کےلیے اول وآخر دونوں وقت پسندیدہ ہیں۔ اس میں نمازی حضرات کا خیال رکھنا ہوگا، اگر وہ جلدی آجائیں تو اول وقت میں اسے پڑھ لیاجائے، بصورت دیگر کچھ مؤخر کردیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نمازیوں کی سہولت اور انتظامی امور کے لیے جواوقات مقرر کیے جاتے ہیں وہ صحیح نہیں بلکہ اگر اوقات مقرر نہ ہوں تو نمازیوں کے لیے پریشانی میں اضافے کا باعث ہے۔ البتہ امام بخاری ؒ اس حدیث کے پیش نظر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز عشاء کےلیے اول وقت کا انتخاب نہیں تھا بلکہ حسب ضرورت اس میں تقدیم و تاخیرکی جاتی تھی، چنانچہ علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ نماز عشاء کےلیے لوگوں کے جمع ہونے کا انتظار کرنا مستحب ہے اور جب جمع ہوجائیں تو بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ (شرح الکرماني:209/2) نماز عشاء کی تاخیر کے متعلق کہ اسے تہائی رات، نصف رات یا طلوع فجر تک مؤخر کیا جاسکتا ہے، اس کا بیان آئندہ آئے گا۔ بإذن الله.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ حجاج نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ محمد بن عمرو سے جو حسن بن علی بن ابی طالب کے بیٹے ہیں، فرمایا کہ ہم نے جابر بن عبداللہ ؓ سے نبی ﷺ کی نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ آپ نماز ظہر دوپہر میں پڑھتے تھے۔ اور جب نماز عصر پڑھتے تو سورج صاف روشن ہوتا۔ مغرب کی نماز واجب ہوتے ہی ادا فرماتے، اور “ عشاء ” میں اگر لوگ جلدی جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور اگر آنے والوں کی تعداد کم ہوتی تو دیر کرتے۔ اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے ترجمہ باب اوران میں آمدہ احادیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ عشاءکی نمازاگرجلدی ادا کی جائے تواسے عشاء ہی کہیں گے اور اگر دیر سے ادا کی جائے تواسے عتمہ کہیں گے، گویا ان لوگوں نے دونوں روایتوں میںتطبیق دی ہے۔ اور ان پر رد اس طرح ہوا کہ ان احادیث میں دونوں حالتوں میں اسے عشاء ہی کہا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin 'Amr (RA): We asked Jabir bin 'Abdullah about the prayers of the Prophet (ﷺ). He said, "He used to pray Zuhr prayer at mid-day, the 'Asr when the sun was still hot, and the Maghrib after sunset (at its stated time). The 'Isha was offered early if the people gathered, and used to be delayed if their number was less; and the Morning Prayer was offered when it was still dark."