Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: To treat opthalmia with antimony or kohl)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں ام عطیہ ؓ سے ایک حدیث بھی مروی ہے
5706.
سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں درد ہو گیا تو لوگوں نے اس عورت کا ذکر نبی ﷺ سے کیا اور اسکی آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بات بھی ہوئی اور یہ کہ اس کی آنکھ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دور جاہلیت میں عدت گزارنے والی عورت کو اپنے گھر میں بد ترین کپڑوں میں رہنا پڑتا تھا۔“ یا فرمایا: ”اپنے کپڑوں میں گھر کے سب سے گندے حصے میں پڑا رہنا پڑتا تھا پھر جب کوئی کتا گزرتا تو اس کو مینگنی مارتی (اور عدت سے باہر آتی) تو کیا اب چار ماہ دس دن تک سرمہ لگانے سے نہیں رک سکتی۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت کی وجہ سے آنکھوں کی تکلیف کے لیے سرمہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر عدت کا دورانیہ نہ ہو تو سرمہ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ بہرحال اثمد سرمے کی فضیلت احادیث میں مروی ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوتے وقت اثمد سرمہ استعمال کیا کرو کیونکہ وہ نظر کو تیز کرتا اور پلکوں کے بال اُگاتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3496) نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا بہترین سرمہ اثمد ہے۔ وہ نظر کو تیز کرتا اور بالوں کو اُگاتا ہے۔‘‘(سنن ابی داود، اللباس، حدیث: 4061) (2) اثمد استعمال کرنے سے مذکورہ فوائد حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ارشاد نبوی پر عمل کرنے کا ثواب الگ ملتا ہے۔ رات کو سوتے وقت سرمہ لگانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ رات بھر آنکھوں میں لگا رہنے کی وجہ سے اچھی طرح اثر کرتا ہے۔ واللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5492
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5706
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5706
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5706
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
معدے کی خرابی کی وجہ سے جب گندے بخارات دماغ کو چڑھتے ہیں تو اگر ناک میں پہنچ جائیں تو اس سے زکام ہو جاتا ہے۔ اگر آنکھ کی طرف چلے جائیں تو اس سے آنکھ دکھنے لگتی ہے۔ اگر گلے کے گوشت کی طرف مائل ہو جائیں تو گلے میں ورم آ جاتا ہے۔ اگر سینے کی طرف گرنے لگیں تو اس سے نزلہ بن جاتا ہے۔ اگر انہیں کسی طرف جانے کا راستہ نہ ملے تو دماغ میں پہنچ کر درد سر کا باعث ہوتے ہیں، پھر اگر ایک جانب ہوں تو درد شقیقہ ہوتا ہے بصورت دیگر پورا سر درد کرتا ہے۔ آنکھوں کے علاج کے لیے، اثمد سرمہ بہت ہی کارآمد ہے۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کی ہے۔ (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: 5341) اس حدیث میں ہے کہ جب بیوہ اپنے خاوند کے سوگ میں ہو تو وہ سرمہ نہ لگائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت کے بعد سرمہ لگانے میں کوئی ممانعت نہیں۔ واللہ اعلم
سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں درد ہو گیا تو لوگوں نے اس عورت کا ذکر نبی ﷺ سے کیا اور اسکی آنکھوں میں سرمہ لگانے کی بات بھی ہوئی اور یہ کہ اس کی آنکھ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”دور جاہلیت میں عدت گزارنے والی عورت کو اپنے گھر میں بد ترین کپڑوں میں رہنا پڑتا تھا۔“ یا فرمایا: ”اپنے کپڑوں میں گھر کے سب سے گندے حصے میں پڑا رہنا پڑتا تھا پھر جب کوئی کتا گزرتا تو اس کو مینگنی مارتی (اور عدت سے باہر آتی) تو کیا اب چار ماہ دس دن تک سرمہ لگانے سے نہیں رک سکتی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدت کی وجہ سے آنکھوں کی تکلیف کے لیے سرمہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اگر عدت کا دورانیہ نہ ہو تو سرمہ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ بہرحال اثمد سرمے کی فضیلت احادیث میں مروی ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوتے وقت اثمد سرمہ استعمال کیا کرو کیونکہ وہ نظر کو تیز کرتا اور پلکوں کے بال اُگاتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3496) نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا بہترین سرمہ اثمد ہے۔ وہ نظر کو تیز کرتا اور بالوں کو اُگاتا ہے۔‘‘(سنن ابی داود، اللباس، حدیث: 4061) (2) اثمد استعمال کرنے سے مذکورہ فوائد حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ارشاد نبوی پر عمل کرنے کا ثواب الگ ملتا ہے۔ رات کو سوتے وقت سرمہ لگانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ رات بھر آنکھوں میں لگا رہنے کی وجہ سے اچھی طرح اثر کرتا ہے۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے حمید بن نافع نے بیان کیا، ان سے حضرت زینب ؓ نے اور ان سے حضرت ام سلمہ ؓ نے کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا (زمانہ عدت میں) اس عورت کی آنکھ دکھنے لگی تو لوگوں نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا۔ ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے سرمہ کا ذکر کیا اور یہ کہ (اگر سرمہ آنکھ میں نہ لگایا تو) ان کی آنکھ کے متعلق خطرہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ (زمانہ جاہلیت میں) عدت گزارنے والی تم عورتوں کے اپنے گھر میں سب سے بد تر کپڑے میں پڑا رہنا پڑتا تھا یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) اپنے کپڑوں میں گھر کے سب سے بد تر حصہ میں پڑا رہنا پڑتا تھا پھر جب کوئی کتا گزرتا تو اس پروہ مینگنی پھینک کر مارتی (تب عدت سے باہر ہوتی) پس چار مہینے دس دن تک سرمہ نہ لگاؤ۔
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب یوں نکلا کہ آپ نے عدت کی وجہ سے آشوب چشم میں سرمہ لگانے کی اجازت نہیں دی۔ اگر عدت نہ ہو تو آپ درد چشم میں سرمہ لگانے کی اجازت دیتے۔ باب کا یہی مطلب ہے زمانہ جاہلیت میں عورت خاوند کے مرجانے پر پھٹے پرانے خراب کپڑے پہن کر سال بھر ایک سڑے بدبودار گھر میں پڑی رہتی۔ سال کے بعد جب کتا سامنے سے نکلتا تو اونٹ کی مینگنی اس پر پھینکتی اس وقت کہیں عدت سے باہر آتی۔ اتفاق سے اگر کتا نہ نکلتا تو اس کے انتظار میں اور پڑی سڑتی رہتی۔ اسلام نے اس غلط رسم کو مٹا کر صرف چارمہینے اور دس دن کی عدت قرار دی اور ان دنوں میں سرمہ لگانے کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : The husband of a lady died and her eyes became sore and the people mentioned her story to the Prophet (ﷺ) They asked him whether it was permissible for her to use kohl as her eyes were exposed to danger. He said, "Previously, when one of you was bereaved by a husband she would stay in her dirty clothes in a bad unhealthy house (for one year), and when a dog passed by, she would throw a globe of dung. No, (she should observe the prescribed period Idda) for four months and ten days.'