مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5714.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر گزارنے کے لیے اپنی دوسری مطہرات سے اجازت طلب کی۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی تو آپ دو اشخاص حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان سہارا لے کر باہر تشریف لائے اس وقت آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے (راوی کہتا ہے کہ) میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں مجھے تو معلوم نہیں، انہوں نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: میرے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ کی بیماری بڑھ گئی تھی: ”مجھ پر سات مشکیزے پانی ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں، شاید میں لوگوں کو کچھ نصیحت کروں۔“ پھر آپ ﷺ کو ہم نے ایک بڑے لگن میں بٹھایا جو نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا تھا پھر ہم نے ان مشکیزوں سے آپ پر پانی بہانا شروع کر دیا حتی کہ آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ تم نے تعمیل حکم کر دی ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس آئے۔ انہیں نماز پڑھائی پھر خطاب کیا۔
تشریح:
(1) یہ عنوان پہلے باب کا تکملہ ہے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کا ذکر تھا، جس کی حاضرین کو سزا دی گئی حتی کہ روزے دار کو بھی معاف نہیں کیا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود آپ کے منہ میں دوائی ڈال دی گئی۔ (2) اس عنوان کے تحت اس کے برعکس واقعہ بیان ہوا ہے کہ حاضرین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ پر سات مشکیں پانی بہایا تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب مریض کے ہوش و حواس قائم ہوں تو اسے کوئی ایسی چیز استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جس سے اس نے روک دیا ہو اور جس چیز کے متعلق وہ حکم دے اس کے بجا لانے میں ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 206/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5498
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5714
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5714
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5714
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر گزارنے کے لیے اپنی دوسری مطہرات سے اجازت طلب کی۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی تو آپ دو اشخاص حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان سہارا لے کر باہر تشریف لائے اس وقت آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے (راوی کہتا ہے کہ) میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں مجھے تو معلوم نہیں، انہوں نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: میرے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ کی بیماری بڑھ گئی تھی: ”مجھ پر سات مشکیزے پانی ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں، شاید میں لوگوں کو کچھ نصیحت کروں۔“ پھر آپ ﷺ کو ہم نے ایک بڑے لگن میں بٹھایا جو نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا تھا پھر ہم نے ان مشکیزوں سے آپ پر پانی بہانا شروع کر دیا حتی کہ آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ تم نے تعمیل حکم کر دی ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس آئے۔ انہیں نماز پڑھائی پھر خطاب کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ عنوان پہلے باب کا تکملہ ہے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کا ذکر تھا، جس کی حاضرین کو سزا دی گئی حتی کہ روزے دار کو بھی معاف نہیں کیا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود آپ کے منہ میں دوائی ڈال دی گئی۔ (2) اس عنوان کے تحت اس کے برعکس واقعہ بیان ہوا ہے کہ حاضرین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ پر سات مشکیں پانی بہایا تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب مریض کے ہوش و حواس قائم ہوں تو اسے کوئی ایسی چیز استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جس سے اس نے روک دیا ہو اور جس چیز کے متعلق وہ حکم دے اس کے بجا لانے میں ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 206/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کوعبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر اوریونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب (مرض الموت میں) رسول اللہ ﷺ کے لیے چلنا پھرنا دشوار ہو گیا اور آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر میں گزارنے کی اجازت اپنی دوسری بیویوں سے مانگی جب اجازت مل گئی تو آنحضرت ﷺ دو اشخاص حضرت عباس ؓ اورایک صاحب کے درميان ان کا سہارا لے کر باہر تشريف لائے، آپ کے مبارک قدم زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا تمہیں معلوم ہے وہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ ؓ نے نام نہیں بتایا، میں نے کہا کہ نہیں کہا کہ وہ علی ؓ تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ ان کے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ کا مرض بڑھ گیا تھا کہ مجھ پر سات مشک ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں۔ شاید میں لوگوں کو کچھ نصیحت کر سکوں۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ کو ہم نے ایک لگن میں بٹھایا جو آنحضرت ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ ؓ کا تھا اور آپ پر حکم کے مطابق مشکوں سے پانی ڈالنے لگے آخر آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ بس ہو چکا۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ صحابہ کے مجمع میں گئے، انہیں نماز پڑھائی اورانہیں خطاب فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) When the health of Allah's Apostle (ﷺ) deteriorated and his condition became serious, he asked the permission of all his wives to allow him to be treated In my house, and they allowed him. He came out, supported by two men and his legs were dragging on the ground between Abbas and another man. (The sub-narrator told Ibn 'Abbas (RA) who said: Do you know who was the other man whom 'Aisha (RA) did not mention? The sub-narrator said: No. Ibn Abbas (RA) said: It was 'Ali.) 'Aisha (RA) added: When the Prophet (ﷺ) entered my house and his disease became aggravated, he said, "Pour on me seven water skins full of water (the tying ribbons of which had not been untied) so that I may give some advice to the people." So we made him sit in a tub belonging to Hafsah (RA), the wife of the Prophet (ﷺ) and started pouring water on him from those water skins till he waved us to stop. Then he went out to the people and led them in prayer and delivered a speech before them.