Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Sibtiya and other shoes)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5851.
حضرت عبید بن جریج سے روایت ہے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے دیکھا ہے جو میں نے آپ کے کسی ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن جریج! وہ کیا کام ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ طواف کرتے وقت صرف یمانیین کو ہاتھ لگاتے ہیں بیت اللہ کے دوسرے کسی کونے کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ میں نے آپ کو سبتی جوتے پہنے دیکھا ہے نیز اپنے کپڑوں کو زرد رنگ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ جب آپ مکہ مکرمہ میں ہوتے ہیں تو لوگ ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر احرام باندھ لیتے ہیں لیکن آپ آٹھویں ذوالحجہ کو احرام باندھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ارکان کعبہ کے متعلق جو تم نے کہا ہے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ لگاتے دیکھا ہے۔ سبتی جوتے پہننا اس لیے ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس چمڑے کے جوتے پہنتے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ انہیں پہنے ہوئے ان میں وضو کرلیتے تھے اس لیے میں بھی پسند کرتا ہوں کہ ایسا ہی جوتا استعمال کروں۔ میرا زرد رنگ استعمال کرنا اس لیے ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ زرد رنگ استعمال کرتے تھے، اس لیے مین بھی زرد رنگ کو پسند کرتا ہوں، رہا احرام باندھنے کا مسئلہ! تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس وقت احرام باندھتے تھے جب سواری پر سوار ہوکر چلنے لگتے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سبتی جوتے پہننا جائز ہے بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ انہیں بطور خاص پہنتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے، البتہ ایک حدیث کی بنا پر امام احمد رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ سبتی جوتے پہن کر قبرستان میں نہیں چلنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے ایک شخص کو آواز دے کر فرمایا تھا: ’’اے سبتی جوتے پہننے والے! اس مقام پر انہیں اتار دو۔‘‘ (مسند أحمد: 83/5) لیکن ضروری نہیں کہ اس نے سبتی جوتا پہن رکھا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرمایا بلکہ ممکن ہے کہ جوتوں کو گندگی لگی ہوئی ہو یا اکرام میت کی وجہ سے اسے جوتے اتارنے کا حکم دیا ہو۔ (2) اس حدیث میں سبتی جوتوں کا ذکر تخصیص کے لیے نہیں بلکہ اتفاقی ہے۔ بہرحال سبتی جوتے پہننا جائز ہیں اور شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5630
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5851
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5851
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5851
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبید بن جریج سے روایت ہے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے آپ کو چار ایسے کام کرتے دیکھا ہے جو میں نے آپ کے کسی ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن جریج! وہ کیا کام ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ طواف کرتے وقت صرف یمانیین کو ہاتھ لگاتے ہیں بیت اللہ کے دوسرے کسی کونے کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ میں نے آپ کو سبتی جوتے پہنے دیکھا ہے نیز اپنے کپڑوں کو زرد رنگ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ جب آپ مکہ مکرمہ میں ہوتے ہیں تو لوگ ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر احرام باندھ لیتے ہیں لیکن آپ آٹھویں ذوالحجہ کو احرام باندھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ارکان کعبہ کے متعلق جو تم نے کہا ہے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ لگاتے دیکھا ہے۔ سبتی جوتے پہننا اس لیے ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس چمڑے کے جوتے پہنتے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ انہیں پہنے ہوئے ان میں وضو کرلیتے تھے اس لیے میں بھی پسند کرتا ہوں کہ ایسا ہی جوتا استعمال کروں۔ میرا زرد رنگ استعمال کرنا اس لیے ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ زرد رنگ استعمال کرتے تھے، اس لیے مین بھی زرد رنگ کو پسند کرتا ہوں، رہا احرام باندھنے کا مسئلہ! تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اس وقت احرام باندھتے تھے جب سواری پر سوار ہوکر چلنے لگتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سبتی جوتے پہننا جائز ہے بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ انہیں بطور خاص پہنتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے، البتہ ایک حدیث کی بنا پر امام احمد رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ سبتی جوتے پہن کر قبرستان میں نہیں چلنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم نے ایک شخص کو آواز دے کر فرمایا تھا: ’’اے سبتی جوتے پہننے والے! اس مقام پر انہیں اتار دو۔‘‘ (مسند أحمد: 83/5) لیکن ضروری نہیں کہ اس نے سبتی جوتا پہن رکھا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرمایا بلکہ ممکن ہے کہ جوتوں کو گندگی لگی ہوئی ہو یا اکرام میت کی وجہ سے اسے جوتے اتارنے کا حکم دیا ہو۔ (2) اس حدیث میں سبتی جوتوں کا ذکر تخصیص کے لیے نہیں بلکہ اتفاقی ہے۔ بہرحال سبتی جوتے پہننا جائز ہیں اور شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے مقبری نے، ان سے عبید بن جریج نے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے عرض کیا کہ میں نے آ پ کو چار ایسی چیزیں کرتے دیکھتا ہوں جو میں نے آپ کے کسی ساتھی کو کرتے نہیں دیکھا ۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا ابن جریج! وہ کیا چیزیں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ (خانہ کعبہ کے) کسی کونے کو طواف میں ہاتھ نہیں لگاتے صرف دو ارکان یمانی (یعنی صرف رکن یمانی اور حجر اسود) کو چھوتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ صاف زین کے چمڑے کا جوتا پہنتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنا کپڑا زرد رنگ سے رنگتے ہیں یا زرد خضاب لگاتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا کہ جب مکہ میں ہوتے ہیں تو سب لوگ تو ذی الحجہ کا چاند دیکھ کر احرام باندھ لیتے ہیں لیکن آپ احرام نہیں باندھتے بلکہ ترویہ کے دن (۸ ذی الحجہ کو) کو احرام باندھتے ہیں۔ ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ خانہ کعبہ کے ارکان کے متعلق جو تم نے کہا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے دیکھا، صاف تری کے چمڑے کے جوتوں کے متعلق جو تم نے پوچھا تو میں نے دیکھا ہے کہ حضور اکرم ﷺ اسی چمڑے کا جوتا پہنتے تھے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ اس کو پہنے ہوئے وضو کرتے تھے اس لیے میں بھی پسند کرتا ہوں کہ ایسا ہی جوتا استعمال کروں۔ زرد رنگ کے متعلق تم نے جو کہا ہے تو میں نے حضور اکرم ﷺ کو اس سے خضاب کرتے یا کپڑے رنگتے دیکھا ہے اس لیے میں بھی اس زرد رنگ کو پسند کرتا ہوں اور رہا احرام باندھنے کا مسئلہ تو میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا کہ آپ اسی وقت احرام باندھتے جب اونٹ پر سوار ہو کر جانے لگتے۔
حدیث حاشیہ:
صحیح یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زرد رنگ کا خضاب داڑھی میں نہیں کیا لیکن آپ زرد خوشبو لگایا کرتے تھے۔ اس کی زردی شاید بالوں میں بھی لگ جاتی ہو معلوم ہوا کہ زرد رنگ کا استعمال مردوں کو بھی درست ہے بشرطیکہ زعفران کا زرد رنگ نہ ہو۔ احرام 8 ذی الحجہ کو باندھنا مسنون ہے۔ حج قران والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اصلاح: روایت ہذا میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا رکن یمانی کو چھونا مذکور ہے اور رکن یمانی کو صرف چھونا ہی چایئے۔ چومنا بوسہ صرف حجر اسود کے لیے ہے۔ ہمارے محترم بزرگ (حضرت حاجی محمد صدیق صاحب کراچی والے مراد ہیں) نے توجہ دلائی ہے کہ میں نے کسی جگہ رکن یمانی کے لیے بھی چومنا لکھ دیا ہے اللہ میرے سہو کو معاف کرے کسی بھائی کو اس بخاری شریف میں کسی جگہ میرے قلم سے اگر رکن یمانی کو بوسہ دینے کا لفظ نظر آئے تو اس کی اصلاح کر کے وہاں صرف رکن یمانی کو ہاتھ لگانا درج فرمائیں۔ (راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said Al-Maqburi (RA) : 'Ubai bin Juraij said to 'Abdullah Ben 'Umar, "I see you doing four things which are not done by your friends." Ibn 'Umar (RA) said, "What are they, O Ibn Juraij?" He said, "I see that you do not touch except the two Yemenite corners of the Ka’bah (while performing the Tawaf): and I see you wearing the Sabtiyya shoes; and I see you dyeing (your hair) with Sufra; and I see that when you are in Makkah, the people assume the state of Ihram on seeing the crescent (on the first day of Dhul-Hijja) while you do not assume the state of Ihram till the Day of Tarwiya (8th Dhul Hijja)." 'Abdullah bin 'Umar said to him, "As for the corners of the Ka’bah, I have not seen Allah's Apostle (ﷺ) touching except the two Yemenite corners, As for the Sabtiyya shoes, I saw Allah's Apostle (ﷺ) wearing leather shoes that had no hair, and he used to perform the ablution while wearing them. Therefore, I like to wear such shoes. As regards dyeing with Sufra, I saw Allah's Apostle (ﷺ) dyeing his hair with it, so I like to dye (my hair) with it. As regards the crescent (of Dhul-Hijja), I have not seen Allah's Apostle (ﷺ) assuming the state of Ihram till his she-camel set out (on the 8th of Dhul-Hijja)."