ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5721
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5944
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5944
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5944
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
عرب کی عورتوں میں یہ رسم بد تھی کہ خوبصورتی کے لیے جسم کے کسی بھی حصے میں سرمہ بھرنے کا کام کرتی تھیں۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مطلوبہ جگہ کو سوئی وغیرہ سے خون آلود کر کے وہاں سرمہ بھر دیا جاتا، اس طرح جلد کے عام رنگ سے مختلف سرخ رنگت وہاں ظاہر ہو جاتی۔ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنا تھا، اس لیے شریعت نے اس کام سے صرف منع ہی نہیں کیا بلکہ اسے باعث لعنت قرار دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نظر بد کا لگ جانا، برحق ہے۔“ اور آپ نے سرمہ بھرنے کے عمل سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن ابی بشیر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نظر لگ جانا حق ہے اور آنحضرت ﷺ نے گودنے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "The evil eye is a fact," and he forbade tattooing.
حدیث حاشیہ:
جولوگ نظر لگنے کو غلط جانتے ہیں وہ بے وقوف ہیں ان کو یہ معلوم نہیں کہ نظر میں اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے اثر رکھے ہیں مسمریزم کا جادو صرف نظر کے اثر سے ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا وہی حق ہے۔ اب جس قدر فلسفہ کی ترقی ہوتی جاتی ہے اسی قدر معلوم ہوتا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث میں جو چودہ سو برس پہلے لایا گیا تھا وہ برحق ہے دیکھو اگلے حکیم یہ سمجھتے تھے کہ تارے آسمان میں گڑے ہوتے ہیں اور قرآن مجید کی اس آیت كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ(الأنبیاء: 33) کی تاویل کرتے تھے اب فلسفہ سے معلوم ہوا کہ ان حکیموں کا خیال غلط تھا تارے کھلی فضا میں پھر رہے ہیں اسی طرح سے وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ(الحجر : 22) کا مطلب اگلے حکیم نہیں سمجھتے تھے ، اب معلوم ہوا کہ ہوا میں نر درخت کا مادہ اڑ کر مادہ درخت میں جاتا ہے گویا ہوائیں مادہ درختوں کو حاملہ بناتی ہیں۔ "لواقح'' کے یہی معنی ہیں حاملہ کرنے والیاں۔ قرآن میں "شراب قلیل ویشرب'' کو حرام کر دیا گیا اس کو رجس فرمایا اگلے حکیم کہتے تھے تھوڑی شراب کو کیوں حرام کیا اس سے نشہ نہیں ہوتا بلکہ قوت ہوتی ہے اب غلط نکلی کیونکہ تھوڑی شراب پیتے ہی آدم کو اپنے اوپر قدرت نہیں رہتی وہ زیادہ پی لیتا ہے اور اپنے تئیں خراب کرتا ہے۔ قرآن کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں چار بیویوں تک کی اور ضرورت کے وقت طلاق دینے کی اجازت ہوئی اب تمام ملک کے عقلاء تسلیم کرتے جاتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو حکم دیا گیا وہی قرین مصلحت ہے اور چاہتے ہیں کہ اپنی اپنی قوموں میں اسی کو رواج دیں۔ وقس علیٰ ھذا (از حضرت وحید الزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ)