Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: The right of the guest)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6134.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کیا میری خبرصحیح ہے کہ تم رات بھی قیام کرتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کرو، روزہ رکھو اور افطار بھی کرو۔ بے شک تمہارے جسم کا تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہوگی۔ تمیارے لیے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھو کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے اس طرح زندگی بھر کے روزوں کا ثواب ہوگا۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا: میں نے اپنی جان پر سختی کی تو مجھ پر سختی کر دی گئی میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کی طرح رکھو۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے نبی داود ؑ کا روزہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”نصف زمانے (آدھی زندگی) کے روزے یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔“
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تعلیم دی ہے کہ انسان کو اعتدال کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرے اور دنیا کی زندگی سے جائز حد تک لطف اندوز بھی ہوتا رہے۔ سنت نبوی یہی ہے کہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی پامال نہ ہونے پائیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مہمان کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے، وہ صرف کھانا دینا ہی نہیں بلکہ اس کے پاس بیٹھنا، اس سے مانوس ہونا، اس کی احوال اور مزاج پرسی کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر دن کا روزہ اور رات کا قیام کرے گا تو مہمان کا حق کیسے ادا کر سکے گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5908
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6134
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6134
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6134
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کیا میری خبرصحیح ہے کہ تم رات بھی قیام کرتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کرو، روزہ رکھو اور افطار بھی کرو۔ بے شک تمہارے جسم کا تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہوگی۔ تمیارے لیے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھو کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے اس طرح زندگی بھر کے روزوں کا ثواب ہوگا۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا: میں نے اپنی جان پر سختی کی تو مجھ پر سختی کر دی گئی میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کی طرح رکھو۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے نبی داود ؑ کا روزہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”نصف زمانے (آدھی زندگی) کے روزے یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تعلیم دی ہے کہ انسان کو اعتدال کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرے اور دنیا کی زندگی سے جائز حد تک لطف اندوز بھی ہوتا رہے۔ سنت نبوی یہی ہے کہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی پامال نہ ہونے پائیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مہمان کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے، وہ صرف کھانا دینا ہی نہیں بلکہ اس کے پاس بیٹھنا، اس سے مانوس ہونا، اس کی احوال اور مزاج پرسی کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر دن کا روزہ اور رات کا قیام کرے گا تو مہمان کا حق کیسے ادا کر سکے گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے، کہا ہم سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی بکر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے عبداللہ بن عمرو ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا، کیا یہ میری خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے رہتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ جی ہاں یہ صحیح ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایسا نہ کرو، عبادت بھی کرو اور سو بھی، روزے بھی رکھ اور بلا روزے سے بھی رہ، کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تم سے ملاقات کے لئے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو گی، تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ ہر مہینہ میں تین روزے رکھو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے، اس طرح زندگی بھر کا روزہ ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سختی چاہی تو آپ نے میرے اوپر سختی کر دی، میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھر ہر ہفتے تین روزہ رکھا کر، بیان کیا کہ میں نے اور سختی چاہی اور آپ نے میرے اوپر سختی کر دی۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پھراللہ کے نبی داؤد ؑ جیسا روزہ رکھ۔ میں نے پوچھا، اللہ کے نبی داؤد ؑ کا روزہ کیسا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ ایک دن افطار گویا آدھی عمر کے روزے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو ملکی اور بہیمی دونوں طاقتیں دے کر معجون مرکب پیدا فرمایا ہے۔ اگر ایک قوت کا بالکل تباہ کر کے انسان فرشتہ بن جائے تو گویا وہ اپنی فطرت بگاڑتا ہے۔ منشائے قدرت یہ ہے کہ آدمی کو آدمی ہی رہنا چاہیئے، عبادت الٰہی بھی ہو اور دنیا کے حظوظ بھی جائز حد کے اندر حاصل کئے جائیں۔ یہی سنت نبوی ہے کہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کئے جائیں اور عبادت بھی کی جائے۔ رات کو آرام بھی کیا جائے اور عبادت بھی کی جائے، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بارے میں خاص طور سے فرمایا کہ نکاح کرنا میری سنت ہے اورجو میری سنت سے نفرت کرے وہ میری امت سے خارج ہے۔ اس سے مجرد رہنے والے نام نہاد پیروں کو سبق لینا چاہیئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA) (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) entered upon me and said, "Have I not been informed that you offer prayer all the night and fast the whole day?" I said, "Yes." He said, "Do not do so; Offer prayer at night and also sleep; Fast for a few days and give up fasting for a few days because your body has a right on you, and your eye has a right on you, and your guest has a right on you, and your wife has a right on you. I hope that you will have a long life, and it is sufficient for you to fast for three days a month as the reward of a good deed, is multiplied ten times, that means, as if you fasted the whole year." I insisted (on fasting more) so I was given a hard instruction. I said, "I can do more than that (fasting)" The Prophet (ﷺ) said, "Fast three days every week." But as I insisted (on fasting more) so I was burdened. I said, "I can fast more than that." The Prophet (ﷺ) said, "Fast as Allah's prophet David used to fast." I said, "How was the fasting of the prophet David?" The Prophet (ﷺ) said, "One half of a year (i.e. he used to fast on alternate days). '