Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: To greet everybody)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6236.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کہو، خواہ تم اسے پہچانو یا نہ پہچانو۔“
تشریح:
(1) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سلام کو عام کرنا آپس کی محبت کا ذریعہ ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک پورے مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا ہو گی، وہ یہ ہے کہ سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:194(54)) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس حقیقت سے ہی آگاہ فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے محبت و الفت پیدا ہوتی ہے۔ اگر یہ سلام دل کے اخلاص اور ایمانی رشتے کی بنیاد پر ہو تو پھر محبت و الفت پیدا ہونے کا یہ بہترین ذریعہ ہے لیکن اسے جان پہچان کی حد تک نہ رکھا جائے بلکہ بلا امتیاز ہر مسلمان کو سلام کرنا چاہیے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ آدمی مسجد کے پاس سے گزرے گا اور اس میں نماز نہیں پڑھے گا اور صرف اس شخص کو سلام کرے گا جسے وہ پہچانتا ہو گا۔ (مسند أحمد:387/1، بذکر السلام، وابن خزیمة في صحیحه بذکر الصلاة کما في الصحیحة للألباني، حدیث649) اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ کافر کو سلام کرنا جائز ہے، حالانکہ ایسا کرنا شرعاً درست نہیں کیونکہ کافر انسان مومن کے سلام کا قطعاً حق دار نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سلام کے اس عمومی انداز سے کافر مستثنیٰ ہے۔ اسے ابتداءً سلام کرنے سے گریز کیا جائے۔ (فتح الباري:27/11) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6010
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6236
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6236
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6236
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کہو، خواہ تم اسے پہچانو یا نہ پہچانو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سلام کو عام کرنا آپس کی محبت کا ذریعہ ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک پورے مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا ہو گی، وہ یہ ہے کہ سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:194(54)) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس حقیقت سے ہی آگاہ فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے محبت و الفت پیدا ہوتی ہے۔ اگر یہ سلام دل کے اخلاص اور ایمانی رشتے کی بنیاد پر ہو تو پھر محبت و الفت پیدا ہونے کا یہ بہترین ذریعہ ہے لیکن اسے جان پہچان کی حد تک نہ رکھا جائے بلکہ بلا امتیاز ہر مسلمان کو سلام کرنا چاہیے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ آدمی مسجد کے پاس سے گزرے گا اور اس میں نماز نہیں پڑھے گا اور صرف اس شخص کو سلام کرے گا جسے وہ پہچانتا ہو گا۔ (مسند أحمد:387/1، بذکر السلام، وابن خزیمة في صحیحه بذکر الصلاة کما في الصحیحة للألباني، حدیث649) اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ کافر کو سلام کرنا جائز ہے، حالانکہ ایسا کرنا شرعاً درست نہیں کیونکہ کافر انسان مومن کے سلام کا قطعاً حق دار نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سلام کے اس عمومی انداز سے کافر مستثنیٰ ہے۔ اسے ابتداءً سلام کرنے سے گریز کیا جائے۔ (فتح الباري:27/11) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے، ان سے عبد اللہ بن عمر و ؓ نے کہ ایک صاحب نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اسلام کی کون سی حالت افضل ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ کہ (مخلوق خدا کو) کھا نا کھلاؤ اور سلام کرو، اسے بھی جسے تم پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث کو روزانہ معمول بنانا بھی بے حد ضروری ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو یہ توفیق بخشے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA) (RA) : A man asked the Prophet, "What Islamic traits are the best?" The Prophet (ﷺ) said, "Feed the people, and greet those whom you know and those whom you do not know."