باب: اللہ پاک کا سورۃ النور میں ارشاد یہ منافق اللہ کی بڑی پکی قسمیں کھاتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: "They swear by Allah their strongest oaths that ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عباسؓ نے کہا کہ ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! مجھ سے بیان فرمائیے میں نے تعبیر دینے میں کیا غلطی کی، آپ ﷺنے فرمایا قسم مت کھا۔
6655.
حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت اسامہ بن زید، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ (پیغام یہ تھا) کہ میرا بیٹا قریب الوفات ہے، آپ تشریف لائیں۔ آپ نے جواب میں پیغام بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو: ”بے شک سب اللہ کے مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو عنایت فرمایا۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک مقرر ہے، لہذا اسے چاہیئے کہ صبر کرے اور اللہ تعالٰی سے ثواب کی امید رکھے۔“ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ اسی وقت اٹھے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تیار ہوئے، جب آپ وہاں جا کر بیٹھے تو بچہ اٹھا کر آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسےاپنی آغوش میں بٹھایا جبکہ وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ رونا رحمت ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے جن کے دلوں میں چاہتا ہے اسے رکھ دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے ان پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں حلف یا یمین کے بجائے لفظ قسم آیا ہے بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ صاجزادی آپ کو قسم دیتی تھیں کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1284) (2) اس امر میں اختلاف ہے کہ أقسمت بالله یا صرف أقسمت کہنے سے قسم ہوتی ہے یا نہیں؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس طرح قسم ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی نیت نہ ہو جبکہ اکثریت کا موقف ہے کہ جب قسم کی نیت ہو تو اس طرح قسم منعقد ہو جاتی ہے۔ اس حدیث سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب صاجزادی نے قسم کے الفاظ سے آپ کو گزارش کی تو آپ اسے پورا کرنے کے لیے فوراً چل پڑے کیونکہ قسم کو پورا کرنا ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 660/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6419
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6655
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6655
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6655
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
لفظ قسم، قسامة سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد وہ قسم ہے جو اندھے قتل میں مقتول کے ورثاء پر لازم ہوتی ہے، پھر اس کا اطلاق ہر قسم کے حلف پر ہونے لگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو لفظ ''أقسمت'' سے حلف مراد نہیں لیتے۔ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس لفظ سے بھی قسم منعقد ہو جاتی ہے، خواہ اس کے ساتھ لفظ ''الله'' کا استعمال نہ کیا جائے جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں ہے، تاہم مطلق حدیث میں قسم باللہ ہی مقصود ہے۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباری: 11/660) امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کی ہے۔ (صحیح البخاری، التعبیر، حدیث: 7046)
اور ابن عباسؓ نے کہا کہ ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! مجھ سے بیان فرمائیے میں نے تعبیر دینے میں کیا غلطی کی، آپ ﷺنے فرمایا قسم مت کھا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت اسامہ بن زید، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ (پیغام یہ تھا) کہ میرا بیٹا قریب الوفات ہے، آپ تشریف لائیں۔ آپ نے جواب میں پیغام بھیجا کہ میرا سلام کہو اور کہو: ”بے شک سب اللہ کے مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو عنایت فرمایا۔ اس کے ہاں ہر چیز کا ایک مقرر ہے، لہذا اسے چاہیئے کہ صبر کرے اور اللہ تعالٰی سے ثواب کی امید رکھے۔“ صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ اسی وقت اٹھے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تیار ہوئے، جب آپ وہاں جا کر بیٹھے تو بچہ اٹھا کر آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسےاپنی آغوش میں بٹھایا جبکہ وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے تو حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ رونا رحمت ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے جن کے دلوں میں چاہتا ہے اسے رکھ دیتا ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے ان پر رحم کرتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں حلف یا یمین کے بجائے لفظ قسم آیا ہے بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ صاجزادی آپ کو قسم دیتی تھیں کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1284) (2) اس امر میں اختلاف ہے کہ أقسمت بالله یا صرف أقسمت کہنے سے قسم ہوتی ہے یا نہیں؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس طرح قسم ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی نیت نہ ہو جبکہ اکثریت کا موقف ہے کہ جب قسم کی نیت ہو تو اس طرح قسم منعقد ہو جاتی ہے۔ اس حدیث سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب صاجزادی نے قسم کے الفاظ سے آپ کو گزارش کی تو آپ اسے پورا کرنے کے لیے فوراً چل پڑے کیونکہ قسم کو پورا کرنا ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 660/11)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ نے کہا: حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول کی قسم! آپ مجھے ضرور بتائیں جو میں نے خواب کی تعبیر میں خطا کی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”قسم نہ دو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم کو عاصم الاحول نے خبر دی، کہا میں نے ابوعثمان سے سنا، وہ اسامہ سے نقل کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی (زینب) نے آپ کو بلا بھیجا اس وقت آپ کے پاس اسامہ بن زید اور سعد بن عبادہ اور ابی بن کعب ؓ بھی بیٹھے تھے۔ صاحبزادی صاحبہ نے کہلا بھیجا کہ ان کا بچہ مرنے کے قریب ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ نے ان کے جواب میں یوں کہلا بھیجا میرا سلام کہو اور کہو سب اللہ کا مال ہے جو اس نے لے لیا اور جو اس نے عنایت فرمایا اور ہر چیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے، صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو۔ صاحبزادی صاحبہ نے قسم دے کر پھر کہلا بھیجا کہ نہیں آپ ضرور تشریف لائیے۔ اس وقت آپ اٹھے، ہم لوگ بھی ساتھ اٹھے جب آپ صاحبزادی صاحبہ کے گھر پر پہنچے اور وہاں جا کر بیٹھے تو بچے کو اٹھا کر آپ کے پاس لائے۔ آپ نے اسے گود میں بٹھا لیا وہ دم توڑ رہا تھا۔ یہ حال پرملال دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ رونا رحم کی وجہ سے ہے اور اللہ اپنے جس بندے کے دل میں چاہتا ہے رحم رکھتا ہے یا یہ ہے کہ اللہ اپنے ان ہی بندوں پر رحم کرے گا جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں قسم دینے کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama (RA) : Once a daughter of Allah's Apostle (ﷺ) sent a message to Allah's Apostle (ﷺ) while Usama, Sa'd, and my father or Ubai were (sitting there) with him. She said, (in the message); My child is going to die; please come to us." Allah's Apostle (ﷺ) returned the messenger and told him to convey his greetings to her, and say, "Whatever Allah takes, is for Him and whatever He gives is for Him, and everything with Him has a limited fixed term (in this world): so she should be patient and hope for Allah's reward." Then she again sent for him swearing that he should come; so The Prophet (ﷺ) got up, and so did we. When he sat there (at the house of his daughter), the child was brought to him, and he took him into his lap while the child's breath was disturbed in his chest. The eyes of Allah's Apostle (ﷺ) started shedding tears. Sa'd said, "What is this, O Allah's Apostle?" The Prophet (ﷺ) said, "This is the mercy which Allah has lodged in the hearts of whoever He wants of His slaves, and verily Allah is merciful only to those of His slaves who are merciful (to others).'