باب: اگر قسم کھانے کے بعد بھولے سے اس کو توڑ ڈالے تو کفارہ لازم ہو گا یا نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Oaths and Vows
(Chapter: If someone does something against his oath due to forgetfulness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”تم پر اس قسم کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جو غلطی سے تم کھا بیٹھو۔“ اور فرمایا کہ ”بھول چوک میں مجھ پر مواخذہ نہ کرو۔یہ حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰؑ سے کہا تھا جب کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ان پر اعتراض کیا تھااس سے معلوم ہوا کہ بھول چوک پہلی شریعتوں پر بھی معاف تھی
6665.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ قربانی کی دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان سے پہلے خیال کرتا تھا پھر ایک دوسرا کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان کے متعلق یونہی خیال کرتا تھا اس کا اشارہ (حلق، رمی اور نحر) تینوں کی طرف تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یونہی کر لو (ان میں سے کسی کام کے پہلے یا بعد کرنے میں) کوئی حرج نہیں“ چنانچہ اس دن آپ ﷺ سے جس کام کے متعلق بھی دریافت کیا گیا تو آپ نے یہی فرمایا: ”یونہی کر لو، کوئی حرج نہیں۔“
تشریح:
(1) حج کے تین ارکان ذبح، حلق اور رمی کے متعلق فرمایا کہ بھول کر تقدیم و تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ نے بھول چوک کی بنا پر یہ قاعدہ جاری فرمایا کیونکہ جان بوجھ کر تقدیم و تاخیر کرنا جائز نہیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب ارکان حج کے متعلق تقدیم و تاخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کے کفارے کا حکم نہیں دیا اور نہ فدیے ہی کو لازم کہا ہے تو قسم کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہے کہ اگر اسے بھی بھول چوک اور سہو و نسیان سے توڑ دیا جائے تو اس پر کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6428
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6665
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6665
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6665
تمہید کتاب
أَيمان، يَمِين کی جمع ہے۔ لغوی طور پر دائیں ہاتھ کو يمين کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کو قسم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اہل عرب جب کسی معاملے میں باہم حلفیہ معاہدہ کرتے تو ہر شخص اپنے ساتھی کا دایاں ہاتھ پکڑتا اور قسم کھا کر پختہ وعدہ کرتا، اس بنا پر یمین کا لفظ قسم پر بولا جانے لگا۔ اس کی دوسری توجیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ دایاں ہاتھ طاقت کے لحاظ سے جسے پکڑے وہ دوسروں کی دست و برد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے یمین کا اطلاق قسم پر ہونے لگا کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی جائے وہ چیز بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح نذور، نذر کی جمع ہے۔ لغوی طور پر ذمے داری کو نذر کہا جاتا ہے۔ چونکہ انسان خود پر اس کے ذریعے سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے ذمے لے لیتا ہے، اس لیے اسے نذر کا نام دیا جاتا ہے، وہ ذمے داری عبادت یا صدقہ یا کسی دوسری چیز کے متعلق ہوتی ہے۔ چونکہ احکام اور نتیجے کے اعتبار سے قسم اور نذر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کو ایک عنوان میں بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر کا کفارہ وہی بتایا ہے جو قسم کا ہے، فرمان نبوی ہے: ''نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔'' (مسند احمد: 4/144)کسی بات کو مضبوط کرنے اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھائی جاتی ہے۔ شریعت نے اسے مشروع قرار دیا ہے۔ اگر کسی اچھے کام کے لیے قسم کھائی گئی ہو تو شریعت نے اسے پورا کرنے کی تاکید کی ہے اور اگر کسی برے یا گناہ کے کام کی قسم اٹھائی ہے تو اسے پورا نہ کرنے اور قسم توڑ دینے پر زور دیا ہے اور اس جرم کی پاداش میں کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مقصد کے بغیر قسم اٹھاتا ہے تو شریعت نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس انداز سے قسم اٹھانے سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی توہین ہوتی ہے، اس کے علاوہ قسم اٹھانے والا لوگوں کی نگاہوں میں بھی گر جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے قسم کی درج ذیل تین قسموں کی نشاندہی کی ہے: ٭ یمین غموس، یعنی جھوٹی قسم، کسی واقعہ کے متعلق جانتے ہوئے کہہ دینا اور قسم اٹھانا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس قسم کی جھوٹی قسم کبھی تو ذاتی فائدے کے لیے کھائی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کا حق مارنے کے لیے۔ بعض لوگ عادت کے طور پر جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ اس طرح کی تمام قسمیں شریعت کی نظر میں کبیرہ گناہ ہیں، بلکہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کا تعلق نفاق سے جوڑا ہے، اس بنا پر جھوٹی قسم بہت بڑا گناہ اور قابل ملامت فعل ہے۔ یمین لغو: بے کار اور بے مقصد قسم، قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ لغو قسم پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مؤاخذہ کرے گا۔'' (المائدۃ: 5/89) اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیۂ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلی قسم کو بیان کیا ہے کہ آدمی عام بات چیت میں جو لا والله اور بلیٰ والله کہہ دیتا ہے وہ یمین لغو ہے جس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ (صحیح البخاری، التفسیر، حدیث: 4613) ٭ یمین منعقدہ: اس سے مراد وہ قسم ہے جو آدمی کسی کام کے آئندہ کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کھاتا ہے۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے کرنے کی اس نے قسم کھائی ہے وہ کام جب نہ کرے گا یا جس کام کے نہ کرنے کی قسم کھائی ہے وہ کرے گا تو اسے کفارہ دینا پڑے گا جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ ایک مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔ حلف کی اس قسم میں قصد و ارادے کا پایا جانا ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس کے لیے عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ اور كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک دل کا ارادہ اور نیت شامل نہ ہو قسم نہ ہو گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ستاسی (87) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اٹھارہ (18) احادیث نذر سے متعلق ہیں، ان پر تقریباً (33) تینتیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں تئیس (23) قسم کے بارے میں اور دس (10) عنوان نذر سے متعلق ہیں۔ چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کس انداز سے ہوتی تھی؟ اپنے باپ دادا کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ لات و عزیٰ اور دیگر طواغیت کے نام کی قسم نہ اٹھائی جائے۔ اگر بھول کر قسم کے منافی کام کر لیا جائے تو کیا حکم ہے؟ یمین غموس کا کیا حکم ہے؟ قسم میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔اسی طرح نذر کے متعلق جستہ جستہ عنوانات حسب ذیل ہیں: نذر کے طور پر اپنا مال ہدیہ کر دینا، نذر کے اعتبار سے کسی چیز کو خود پر حرام کر لینا، نذر کو پورا کرنے کی اہمیت، نذر کو پورا نہ کرنے کا گناہ، نذر اچھے کاموں میں ہونی چاہیے۔ اگر مرنے والے کے ذمے کوئی نذر ہو تو کیا کیا جائے؟ ایسی چیز کی نذر ماننا جس کا وہ مالک نہیں یا کسی گناہ کی نذر ماننا۔اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم اور نذر کے متعلق بے شمار احکام ذکر کیے ہیں جن کی ہم آئندہ تفصیل بیان کریں گے۔ بہرحال قسم کے متعلق درج ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے: ٭ قسم ہمیشہ اچھے امر کے متعلق کھائی جائے۔ قسم کھانے کے بعد قسم کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٭ تکیۂ کلام کے طور پر قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ٭ جب قسم کھانی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھائی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسری کسی چیز کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے۔ ٭ جھوٹی قسم نہ اٹھائی جائے کیونکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ ٭ جو شخص کسی کام کرنے کی قسم اٹھائے، پھر ان شاءاللہ کہہ دے تو کام نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کفارہ ہی دینا پڑے گا۔ ٭ قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ ٭ اگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھا لی جائے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے میں بہتری ہو تو بہتر چیز کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی قسم کو توڑ دیا جائے اور کفارہ دیا جائے۔اسی طرح نذر کے سلسلے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: ٭ نذر ایسے عہد کو کہا جاتا ہے جو خود انسان اپنے اوپر واجب قرار دے لیتا ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ کسی اچھے عہد کو اپنے اوپر واجب کرے، اسے نذر طاعت کہتے ہیں۔ اس کی تین قسمیں ہیں: ٭ واجبات کی ادائیگی، مثلاً نماز پنجگانہ، صوم رمضان اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ ٭ واجبات کے علاوہ دیگر عبادات کی نذر، مثلاً: صدقہ کرنا یا اعتکاف بیٹھنا۔ ٭ عبادات کے علاوہ دیگر قربات کی نذر، مثلاً: تیمارداری اور فقراء کی خبر گیری کرنا۔ نذر کی ایک قسم نذر معصیت بھی ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، مثلاً: شراب نوشی، سود خوری اور رشوت ستانی۔ اس قسم کی نذر کو ترک کرنا ضروری ہے بلکہ شریعت نے ایسی نذر سے منع کیا ہے اور اس قسم کی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس قسم کے متعدد احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام ہماری مذکورہ گزارشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھول کر قسم توڑنے والے کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں کیا لیکن پیش کردہ آیات و احادیث سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھول اور غلطی کے عذر کی وجہ سے اس قسم کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔ اس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ باذن اللہ تعالیٰ
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”تم پر اس قسم کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جو غلطی سے تم کھا بیٹھو۔“ اور فرمایا کہ ”بھول چوک میں مجھ پر مواخذہ نہ کرو۔یہ حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰؑ سے کہا تھا جب کہ حضرت موسیٰ ؑ نے ان پر اعتراض کیا تھااس سے معلوم ہوا کہ بھول چوک پہلی شریعتوں پر بھی معاف تھی
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ قربانی کی دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان سے پہلے خیال کرتا تھا پھر ایک دوسرا کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں ارکان کے متعلق یونہی خیال کرتا تھا اس کا اشارہ (حلق، رمی اور نحر) تینوں کی طرف تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یونہی کر لو (ان میں سے کسی کام کے پہلے یا بعد کرنے میں) کوئی حرج نہیں“ چنانچہ اس دن آپ ﷺ سے جس کام کے متعلق بھی دریافت کیا گیا تو آپ نے یہی فرمایا: ”یونہی کر لو، کوئی حرج نہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حج کے تین ارکان ذبح، حلق اور رمی کے متعلق فرمایا کہ بھول کر تقدیم و تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ نے بھول چوک کی بنا پر یہ قاعدہ جاری فرمایا کیونکہ جان بوجھ کر تقدیم و تاخیر کرنا جائز نہیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب ارکان حج کے متعلق تقدیم و تاخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کے کفارے کا حکم نہیں دیا اور نہ فدیے ہی کو لازم کہا ہے تو قسم کے متعلق بھی یہی ضابطہ ہے کہ اگر اسے بھی بھول چوک اور سہو و نسیان سے توڑ دیا جائے تو اس پر کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو تم بھول کر کرو۔“نیز فرمایا: ”بھول چوک پر میرا مؤاخذہ نہ کرو۔“
فائدہ: امام بخارینے بھول کر قسم توڑنے والے کے متعلق کوئی حکم بیان نہیں کیا لیکن پیش کردہ آیات واحادیث سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھول اور غلطی کی وجہ سے اس قسم کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی کفارہ نہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن الہیثم نے بیان کیا یا ہم سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے عثمان بن الہیثم سے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے کہا کہ میں نے ابن شہاب سے سنا، کہا کہ مجھ سے عیسیٰ بن طلحہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمرو بن العاص نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (حجۃ الوداع میں) قربانی کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میں فلاں فلاں ارکان کو فلاں فلاں ارکان سے پہلے خیال کرتا تھا (اس غلطی سے ان کو آگے پیچھے ادا کیا) اس کے بعد دوسرے صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فلاں فلاں ارکان حج کے متعلق یونہی خیال کرتا تھا ان کا اشارہ (حلق، رمی اور نحر) کی طرف تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یونہی کر لو (تقدیم و تاخیر کرنے میں) آج ان میں سے کسی کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ اس دن نبی کریم ﷺ سے جس مسئلہ میں بھی پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ کر لو کوئی حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ آپ نے محض بھول چوک کی بنا پر فرمایا تھا ورنہ قصداً ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ حضرت امام بخاری نےاس سے یہ نکالا کہ حج کے کاموں میں بھول چوک پرآنحضرت ﷺ نے کسی کفارہ کا حکم نہیں دیا نہ فدیہ کا تو اسی طرح قسم بھی اگر چوک سے سے توڑ ڈالے تو کفارہ لازم نہ ہوگا (وحیدی) سند میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سہمی قریشی مذکور ہوئے ہیں تو بڑے زبردست عابد عالم حافظ اورقاری قرآن تھے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے آپ کی احادیث لکھنے کی اجازت مانگی تھی اور ان کو اجازت دی گئی۔ چنانچہ یہ احادیث نبوی کے اولین جامع ہیں۔ رات کو چراغ بجھا کر نماز میں کھڑے ہوتے اور بہت ہی زیادہ روتے۔ چنانچہ ان کی آنکھیں خراب ہوگئی تھیں۔ جنگ حرہ کےدنوں میں بماہ ذی الحجہ 63ھ میں وفات پائی رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔ اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔ مگر شاید امام بخاری نے یہ روایت لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس میں یوں ہےکہ تیسری بار وہ شخص کہنے لگا قسم اس پروردگار کی جس نے سچائی کے ساتھ آپ کو بھیجا میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا ایسی قسم بھی آیت ﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ﴾ میں داخل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA) bin Al-As (RA) : While the Prophet (ﷺ) was delivering a sermon on the Day of Nahr (i.e., 10th Dhul-Hijja-Day of slaughtering the sacrifice), a man got up saying, "I thought, O Allah's Apostle, such-and-such a thing was to be done before such-and-such a thing." Another man got up, saying, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! As regards these three (acts of Hajj), thought so-and-so." The Prophet (ﷺ) said, "Do, and there is no harm," concerning all those matters on that day. And so, on that day, whatever question he was asked, he said, "Do it, do it, and there is no harm therein."