باب: سورۃ تحریم میں اللہ تعالی کا فرمان” اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کیا ہوا ہے اور اللہ تمہارا کارساز ہے اور وہ بڑا جاننے والا بڑی حکمت والا ہے“
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: When is expiation due upon the rich and the poor?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مال دار اور محتاج پر کفارہ کب واجب ہوتا ہے؟۔جو حدیث امام بخاری نے اس باب میں بیان کی ہے وہ رمضان کے کفارہ کے بیان میں ہے مگر قسم کے کفارہ کو اسی پر قیاس کیا ہے
6709.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں نے رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے آپ نے فرمایا: ”کیا تم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟“ پھر فرمایا: اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ فرمایا: ”بیٹھ جاؤ۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک عرق لایا گیا جس میں کھجوریں تھں۔ عرق ایک بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ”یہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو۔“ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ اس پر نبی ﷺ ہنس دیے حتیٰ کہ آپ کے سامنے والے دانت دکھائی دینے لگے: پھر آپ نے فرمایا: ”اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔“
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حدیث سے یہ ہے کہ جس طرح حدیث میں مذکور شخص نے روزے کے منافی کام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے اسے کفارہ دینے کی تلقین کی، اسی طرح قسم میں بھی اگر کوئی شخص قسم کے منافی کام کرے گا تو قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔ اگرچہ اس حدیث میں رمضان کے روزے کا کفارہ ذکر ہوا ہے، تاہم قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ (2) قرآن کریم کی ظاہر آیت سے یہ حکم سمجھا جا سکتا ہے کہ کفارہ، قسم کے فوراً بعد پڑ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ﴾’’یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو۔‘‘(المائدة: 89/5) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قرآنی آیت کے مفہوم کو متعین کیا ہے کہ کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب قسم کے منافی کام کیا جائے جیسا کہ روزے کا کفارہ اس وقت واجب ہوا جب اس نے روزے کے منافی کام کیا۔ (3) واضح رہے کہ روزے کا کفارہ بالترتیب ہے، یعنی پہلے غلام آزاد کرے اگر اس کی ہمت نہیں تو دو ماہ مسلسل روزے رکھے اور اگر اس کی بھی ہمت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے جبکہ قسم کے کفارے میں اسے اختیار ہے: دس مساکین کو کھانا کھلا دے یا انہیں پوشاک دے دے یا ایک غلام آزاد کر دے۔ اگر ان میں سے کسی کی ہمت نہیں تو تین دن کے روزے رکھ لے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6471
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6709
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6709
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6709
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ قسم کا کفارہ اس وقت جواب ہوتا ہے جب قسم توڑ دی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ روزہ توڑنے والے پر کفارہ اس وقت واجب ہوا جب اس نے عملاً روزے کی منافی کام، یعنی اپنی بیوی سے جماع کیا، نیز یہ بتانا مقصود ہے کہ کفارہ ہر صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے، خواہ ادا کرنے والا تنگدست ہی کیوں نہ ہو۔ (فتح الباری: 11/726)
اور مال دار اور محتاج پر کفارہ کب واجب ہوتا ہے؟۔جو حدیث امام بخاری نے اس باب میں بیان کی ہے وہ رمضان کے کفارہ کے بیان میں ہے مگر قسم کے کفارہ کو اسی پر قیاس کیا ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میں ہلاک ہو گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا: میں نے رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے آپ نے فرمایا: ”کیا تم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟“ پھر فرمایا: اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ فرمایا: ”بیٹھ جاؤ۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس ایک عرق لایا گیا جس میں کھجوریں تھں۔ عرق ایک بڑے ٹوکرے کو کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ”یہ لے لو اور اسے صدقہ کر دو۔“ اس نے کہا: اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ اس پر نبی ﷺ ہنس دیے حتیٰ کہ آپ کے سامنے والے دانت دکھائی دینے لگے: پھر آپ نے فرمایا: ”اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حدیث سے یہ ہے کہ جس طرح حدیث میں مذکور شخص نے روزے کے منافی کام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے اسے کفارہ دینے کی تلقین کی، اسی طرح قسم میں بھی اگر کوئی شخص قسم کے منافی کام کرے گا تو قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔ اگرچہ اس حدیث میں رمضان کے روزے کا کفارہ ذکر ہوا ہے، تاہم قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ (2) قرآن کریم کی ظاہر آیت سے یہ حکم سمجھا جا سکتا ہے کہ کفارہ، قسم کے فوراً بعد پڑ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ﴾’’یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو۔‘‘(المائدة: 89/5) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قرآنی آیت کے مفہوم کو متعین کیا ہے کہ کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب قسم کے منافی کام کیا جائے جیسا کہ روزے کا کفارہ اس وقت واجب ہوا جب اس نے روزے کے منافی کام کیا۔ (3) واضح رہے کہ روزے کا کفارہ بالترتیب ہے، یعنی پہلے غلام آزاد کرے اگر اس کی ہمت نہیں تو دو ماہ مسلسل روزے رکھے اور اگر اس کی بھی ہمت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے جبکہ قسم کے کفارے میں اسے اختیار ہے: دس مساکین کو کھانا کھلا دے یا انہیں پوشاک دے دے یا ایک غلام آزاد کر دے۔ اگر ان میں سے کسی کی ہمت نہیں تو تین دن کے روزے رکھ لے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی: ”اللہ تعالٰی نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کریا ہے۔ سب کچھ جاننے والا پر چیز سے باخبر ہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے حضرت سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ان کی زبان سے سنا وہ حمید بن عبدالرحمن سے بیان کرتے تھے، ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میں تو تباہ ہو گیا۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا، کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہم بستری کر لی۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا، کیا تم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا دو مہینے متواتر روزے رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ وہ صاحب بیٹھ گئے۔ پھر آنحضرت ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں (عرق ایک بڑا پیمانہ ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ لے جا اور اسے پورا صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا، کیا اپنے سے زیادہ محتاج پر(صدقہ کر دوں)؟ اس پر آنحضرت ﷺ ہنس ديے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے اور پھر آپ نے فرمایا کہ اپنے بچوں ہی کو کھلا دینا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man came to the Prophet (ﷺ) and said, "I am ruined!" The Prophet (ﷺ) said, "What is the matter with you?" He said, "I had sexual relation with my wife (while I was fasting) in Ramadan." The Prophet (ﷺ) said, "Have you got enough to manumit a slave?" He said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Can you fast for two successive months?" The man said, "No." The Prophet (ﷺ) said, "Can you feed sixty poor persons?" The man said, "No." Then the Prophet (ﷺ) said to him, "Sit down," and he sat down. Afterwards an 'Irq, i.e., a big basket containing dates was brought to the Prophet (ﷺ) and the Prophet (ﷺ) said to him, "Take this and give it in charity." The man said, "To poorer people than we?" On that, the Prophet (ﷺ) smiled till his premolar teeth became visible, and then told him, "Feed your family with it." (See Hadith No. 157, Vol 3)