مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
آنحضرتﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال اکٹھا ہو اسے جدا جدا نہ کریں اور جو جدا جدا ہو اسے اکٹھا نہ کریں۔
6959.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ انصاری ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے متعلق سوال کیا جو ان کی والدہ کے ذمے تھی اور انکی وفات نذر پورا کرنے سے پہلے ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے نذر پوری کر دو۔“ بعض لوگ کہتے ہیں: جب اونٹوں کی مقدار بیس ہو جائے تو ان میں چار بکریاں دینا ضروری ہیں۔ اگر سال پورا ہونے سے پہلے کسی کو اونٹ ہبہ کر دے یا اسے فروخت کر دے، یہ حیلہ زکاۃ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اختیار کرے تو اس پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ ان کو تلف کر دے، اور خود فوت ہو جائے تو اس کے مال میں کوئی چیز واجب نہیں۔
تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی اور وہ اسے پورا کرنے سے پہلے فوت ہوگیا تو اس کے ورثاء پر نذر کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ فوت ہوگئی تھیں جبکہ نذر کا پورا کرنا ان کے ذمے تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کی نذر پوری کریں۔اسی طرح زکاۃ کا حکم ہے کہ صاحب زکاۃ کے مرنے کے بعد وہ ساقط نہیں ہوگی بلکہ ورثاء کو چاہیے کہ وہ اس کے مال سے پہلے زکاۃ ادا کریں، پھر اس کا ترکہ تقسیم کریں۔ جب نذر موت سے ساقط نہیں ہوتی تو زکاۃ بطریق اولیٰ ساقط نہیں ہوگی۔ 2۔اس مقام پر بعض حضرات نے جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کی بحث چھیڑی ہے، اس کی حیثیت سخن سازی سے زیادہ نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ دونوں ممنوع ہیں۔ بہرحال احکام الٰہی سےفرار کا راستہ اختیار کرنے کے لیے جو بھی حیلہ کیا جائے گا شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قیامت کے دن ایسے شخص کا ضرور مواخذہ ہوگا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6709
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6959
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6959
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6959
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال اکٹھا ہو اسے جدا جدا نہ کریں اور جو جدا جدا ہو اسے اکٹھا نہ کریں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت سعد بن عبادہ انصاری ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے متعلق سوال کیا جو ان کی والدہ کے ذمے تھی اور انکی وفات نذر پورا کرنے سے پہلے ہو گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم اس کی طرف سے نذر پوری کر دو۔“ بعض لوگ کہتے ہیں: جب اونٹوں کی مقدار بیس ہو جائے تو ان میں چار بکریاں دینا ضروری ہیں۔ اگر سال پورا ہونے سے پہلے کسی کو اونٹ ہبہ کر دے یا اسے فروخت کر دے، یہ حیلہ زکاۃ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اختیار کرے تو اس پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ ان کو تلف کر دے، اور خود فوت ہو جائے تو اس کے مال میں کوئی چیز واجب نہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے نذر مانی اور وہ اسے پورا کرنے سے پہلے فوت ہوگیا تو اس کے ورثاء پر نذر کا پورا کرنا ضروری ہے جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ فوت ہوگئی تھیں جبکہ نذر کا پورا کرنا ان کے ذمے تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ان کی نذر پوری کریں۔اسی طرح زکاۃ کا حکم ہے کہ صاحب زکاۃ کے مرنے کے بعد وہ ساقط نہیں ہوگی بلکہ ورثاء کو چاہیے کہ وہ اس کے مال سے پہلے زکاۃ ادا کریں، پھر اس کا ترکہ تقسیم کریں۔ جب نذر موت سے ساقط نہیں ہوتی تو زکاۃ بطریق اولیٰ ساقط نہیں ہوگی۔ 2۔اس مقام پر بعض حضرات نے جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کی بحث چھیڑی ہے، اس کی حیثیت سخن سازی سے زیادہ نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ دونوں ممنوع ہیں۔ بہرحال احکام الٰہی سےفرار کا راستہ اختیار کرنے کے لیے جو بھی حیلہ کیا جائے گا شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قیامت کے دن ایسے شخص کا ضرور مواخذہ ہوگا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عتبہ نے، اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ انصاری ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذر کے بارے میں سوال کیا جو ان کی والدہ پر تھی اور ان کی وفات نذر پوری کرنے سے پہلے ہی ہو گئی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تو ان کی طرف سے پوری کر۔ اس کے باوجود بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب اونٹ کی تعداد بیس ہو جائے تو اس میں چار بکریاں لازم ہیں۔ پس اگر سال پورا ہونے سے پہلے اونٹ کو ہبہ کر دے یا اسے بیچ دے۔ زکوٰۃ سے بچنے یا حیلہ کے طور پر تاکہ زکوٰۃ اس پر ختم ہو جائے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔ یہی حال اس صورت میں ہے اگر اس نے ضائع کر دیا اور پھر مر گیا تو اس کے مال پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ جب مر جانے سے سنت ساقط نہ ہوئی اور ولی کو اس کے ادا کرنے کا حکم دیا گیا تو زکوٰۃ بطریق اولیٰ مرنے سے یا حیلہ کرنے سے ساقط نہ ہوگی اور یہی بات درست ہے۔ حنفیہ کا کہنا یہ ہے کہ صاحب زکوٰۃ کے مرنے سے وارثوں پر لازم نہیں کہ اس کے ذمہ جو زکوٰۃ واجب تھی وہ اس کے کل میں سے ادا کریں۔ حنفیہ کا یہ مسئلہ صریح حضرت سعد کی حدیث کے خلاف ہے کیوں کہ حضرت سعد کی ماں مرگئی تھیں مگر جو ان کے ذمہ نذر رہ گئی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس کے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ یہی حکم زکوٰۃ میں بھی ہونا چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : Sa'd bin 'Ubadah Al-Ansari sought the verdict of Allah's Apostle (ﷺ) regarding a vow made by his mother who had died before fulfilling it. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Fulfill it on her behalf." Some people said, "If the number of camels reaches twenty, then their owner has to pay four sheep as Zakat; and if their owner gives them as a gift or sells them in order to escape the payment of Zakat cunningly before the completion of a year, then he is not to pay anything, and if he slaughters them and then dies, then no Zakat is to be taken from his property."