باب : ہبہ پھیرلینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Tricks
(Chapter: (Tricks in) gift-giving and pre-emption)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ہزار درہم یا اس سے زیادہ ہبہ کئے اور یہ درہم موہوب کے پاس برسوں رہ چکے پھر واہب نے حیلہ کر کے ان کو لے لیا۔ ہبہ میں رجوع کر لیا ۔ ان میں سے کسی پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور ان لوگو ں نے آنحضرت ﷺکی حدیث کا خلاف کیا جو حبہ میں وارد ہے اور باوجود سال گزر نے کے اس میں زکوٰۃ ساقط ہے ۔
6976.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے شفعہ کا حق ہر اس چیز میں دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے كہا ہے: شفعہ کا حق پڑاسی اور ہمسائے کو بھی ہوتا ہے، پھر جس چیز (ہمسائے کے حق شفعہ) کو مضبوط کیا تھا اسے خود ہی باطل قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا، پھر اسے خطرہ محسوس ہوا کہ اس کا پڑوسی شفعے کی بنیاد پر اس سے گھر لے لے گا تو اسے چاہیے کہ وہ مکان کے سو حصوں میں سے پہلے ایک حصہ خرید لے، پھر باقی حصے خرید کرے۔ ایسی صورت میں پڑوسی کو صرف پہلے خرید کردہ حصے میں شفعے کا حق ہوگا۔ مکان کے باقی حصوں میں اسے حق شفعہ حاصل نہیں ہوگا۔ خریدار اس کا مکان کے متعلق اس قسم کا حیلہ کر سکتا ہے۔
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شفعے کے سلسلے میں حیلے سازوں کے اقوال میں تناقض ثابت کرنے کے لیے چار صورتیں ذکر کی ہیں جن میں پہلی صورت یہاں بیان کی ہے فرماتے ہیں کہ انھوں نے پہلے پڑوس کا حق شفعہ ثابت کیا پھر خودہی اس حق کو برباد کرنے کا حیلہ بتایا کہ خریدار بیچنے والے سے اس گھر کے سو حصوں میں سے صرف ایک مشترک حصہ خرید لے جس کی بنا پر وہ خریدے ہوئے گھر میں بیچنے والے کا شریک ہو جائے گا۔ اب پڑوسی اس ایک حصے کو معمولی اور حقیر خیال کر کے شفعہ نہیں کرے گا پھر چونکہ خریدار اس گھر میں شریک بن چکا ہے اور شریک کا حق پڑوسی کے حق سے مقدم ہوتا ہے اس لیے اب وہ گھر کے باقی ننانوے حصے بھی خرید لے اب پڑوسی کے لیے ان باقی حصوں میں حق شفعہ نہیں رہے گا۔ اس انداز سے حیلہ سازوں نے پڑوسی کا حق شفعہ ثابت کرنے کے بعد اسے باطل کر دیا کہ نہ تو وہ پہلے میں شفعہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ تو انتہائی تھوڑا ہے اور نہ باقی حصوں میں شفعہ کر سکے گا کیونکہ شریک کا حق اس سے مقدم ہے۔ اسی تناقص کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث پیش کی ہے۔ 2۔شریعت نے پڑوسی کو شفعے کا حق اس لیے دیا ہے تاکہ وہ آنے والے مکین کی اذیت رسانی سے محفوظ رہے کیونکہ فروخت کرنے والے نے تو گھر بیچ کر چلے جانا ہے اب فروخت کرنے والے نے یہ حیلہ کر کے اپنے پڑوسی کو نقصان پہنچایا ہے ہمیں ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو ایسے حیلے جائز قرار دیتے ہیں جنھیں عمل میں لانے سے ایک مسلمان اپنے حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ 3۔ہمارے رجحان کے مطابق کسی کا حق مارنے کے لیے حیلہ کرنا حرام اور ناجائز ہے جس کی تفصیل ہم پہلے بیان آئے ہیں۔ 4۔ واضح رہے کہ ہمارے نزدیک صرف ہمسائیگی سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ’’ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دار ہے۔ شفعےکی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث3518) اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعے کا حق ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے اسی موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6726
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6976
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6976
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6976
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
اور بعض لوگوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ہزار درہم یا اس سے زیادہ ہبہ کئے اور یہ درہم موہوب کے پاس برسوں رہ چکے پھر واہب نے حیلہ کر کے ان کو لے لیا۔ ہبہ میں رجوع کر لیا ۔ ان میں سے کسی پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور ان لوگو ں نے آنحضرت ﷺکی حدیث کا خلاف کیا جو حبہ میں وارد ہے اور باوجود سال گزر نے کے اس میں زکوٰۃ ساقط ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے شفعہ کا حق ہر اس چیز میں دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے كہا ہے: شفعہ کا حق پڑاسی اور ہمسائے کو بھی ہوتا ہے، پھر جس چیز (ہمسائے کے حق شفعہ) کو مضبوط کیا تھا اسے خود ہی باطل قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا، پھر اسے خطرہ محسوس ہوا کہ اس کا پڑوسی شفعے کی بنیاد پر اس سے گھر لے لے گا تو اسے چاہیے کہ وہ مکان کے سو حصوں میں سے پہلے ایک حصہ خرید لے، پھر باقی حصے خرید کرے۔ ایسی صورت میں پڑوسی کو صرف پہلے خرید کردہ حصے میں شفعے کا حق ہوگا۔ مکان کے باقی حصوں میں اسے حق شفعہ حاصل نہیں ہوگا۔ خریدار اس کا مکان کے متعلق اس قسم کا حیلہ کر سکتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شفعے کے سلسلے میں حیلے سازوں کے اقوال میں تناقض ثابت کرنے کے لیے چار صورتیں ذکر کی ہیں جن میں پہلی صورت یہاں بیان کی ہے فرماتے ہیں کہ انھوں نے پہلے پڑوس کا حق شفعہ ثابت کیا پھر خودہی اس حق کو برباد کرنے کا حیلہ بتایا کہ خریدار بیچنے والے سے اس گھر کے سو حصوں میں سے صرف ایک مشترک حصہ خرید لے جس کی بنا پر وہ خریدے ہوئے گھر میں بیچنے والے کا شریک ہو جائے گا۔ اب پڑوسی اس ایک حصے کو معمولی اور حقیر خیال کر کے شفعہ نہیں کرے گا پھر چونکہ خریدار اس گھر میں شریک بن چکا ہے اور شریک کا حق پڑوسی کے حق سے مقدم ہوتا ہے اس لیے اب وہ گھر کے باقی ننانوے حصے بھی خرید لے اب پڑوسی کے لیے ان باقی حصوں میں حق شفعہ نہیں رہے گا۔ اس انداز سے حیلہ سازوں نے پڑوسی کا حق شفعہ ثابت کرنے کے بعد اسے باطل کر دیا کہ نہ تو وہ پہلے میں شفعہ کر سکتا ہے کیونکہ وہ تو انتہائی تھوڑا ہے اور نہ باقی حصوں میں شفعہ کر سکے گا کیونکہ شریک کا حق اس سے مقدم ہے۔ اسی تناقص کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث پیش کی ہے۔ 2۔شریعت نے پڑوسی کو شفعے کا حق اس لیے دیا ہے تاکہ وہ آنے والے مکین کی اذیت رسانی سے محفوظ رہے کیونکہ فروخت کرنے والے نے تو گھر بیچ کر چلے جانا ہے اب فروخت کرنے والے نے یہ حیلہ کر کے اپنے پڑوسی کو نقصان پہنچایا ہے ہمیں ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو ایسے حیلے جائز قرار دیتے ہیں جنھیں عمل میں لانے سے ایک مسلمان اپنے حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ 3۔ہمارے رجحان کے مطابق کسی کا حق مارنے کے لیے حیلہ کرنا حرام اور ناجائز ہے جس کی تفصیل ہم پہلے بیان آئے ہیں۔ 4۔ واضح رہے کہ ہمارے نزدیک صرف ہمسائیگی سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ ’’ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دار ہے۔ شفعےکی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث3518) اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعے کا حق ختم ہو جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے اسی موقف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں نے کہا: اگر کسی نے ایک ہزار یا اس سے زیادہ درہم کسی دوسرے کو ہبہ کیے حتی کہ وہ اس کے پاس کئی سال رہے، پھر ان میں اس طرح حیلہ کیا کہ ہبہ کرنے والے نے وہ درہم اس سے واپس لے لیے تو ان دونوں میں سے کسی پر بھی زکاۃ واجب نہیں۔ ان حضرات نے ہبہ کے معاملے میں رسول اللہﷺکی کھلی مخالفت کی ہے، مزید برآں انہوں نے زکاۃ بھی ساقط کردی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی‘ انہیں زہری نے‘ انہیں ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعہ کا حکم ہر اس چیز میں دیا تھا جو تقسیم نہ ہو سکتی ہو۔ پس جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ شفعہ کا حق پڑوسی کو بھی ہوتا ہے پھر خود ہی اپنی بات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی گھر خریدا اور اسے خطرہ ہے کہ ا سکا پڑوسی حق شفعہ کی بنا پر ا س سے گھر لے لے گا تو اس نے اس کے سو حصے کر کے ایک حصہ اس میں سے پہلے خرید لیا اور باقی حصے بعد میں خریدے تو ایسی صورت میں پہلے حصے میں تو پڑوسی کو شفعہ کا حق ہوگا۔ گھر کے باقی حصوں میں اسے یہ حق نہیں ہوگا اور اس کے لیے جائز ہے کہ یہ حیلہ کرے۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ خریدار اس گھر کا شریک ہے اور شریک کا حق ہمسایہ پر مقدم ہے اور ان لوگوں نے خریدا ر کے لیے اس قسم کا حیلہ جائز رکھا ہے حالانکہ اس میں ایک مسلمان کا حق تلف کرنا ہے اور ان فقہاء پر تعجب ہے جو ایسے حیلے کرنا جائز رکھتے ہیں ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) has decreed that preemption is valid in all cases where the real estate concerned has not been divided, but if the boundaries are established and the ways are made, then there is no preemption. A man said, "Preemption is only for the neighbor," and then he makes invalid what he has confirmed. He said, "If someone wants to buy a house and being afraid that the neighbor (of the house) may buy it through preemption, he buys one share out of one hundred shares of the house and then buys the rest of the house, then the neighbor can only have the right of preemption for the first share but not for the rest of the house; and the buyer may play such a trick in this case."