باب: ایک شخص امام کی اقتداء کرے اور لوگ اس کی اقتداء کریں (تو کیسا ہے؟)۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If a person follows the Imam and the others follow that person (then it is all right))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ( پہلی صف والوں سے ) فرمایا تم میری پیروی کرو اور تمہارے پیچھے جو لوگ ہیں وہ تمہاری پیروی کریں۔
713.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت بلال ؓ آپ کے پاس نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ میں نے حضرت حفصہ ؓ سے کہا کہ آپ عرض کریں کہ حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے، لہذا اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: ’’تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ جب حضرت ابوبکر ؓ نے نماز کا آغاز کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اندر کچھ تخفیف محسوس فرمائی، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور دو آدمیوں کے سہارے چل پڑے۔ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے تاآنکہ آپ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر ؓ نے آپ کی آہٹ سنی تو پیچھے ہٹنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ فرمایا: (کہ پیچھے نہ ہٹیں)۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر ؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے۔ (گویا) حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کرتے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں تھے۔
تشریح:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کے رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات کے وقت والی امامت کے متعلق درج ذیل تین احتمالات ہو سکتے ہیں:٭ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابو بکر ؓ ایک مبلغ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات لوگوں تک پہنچاتے تھے، جیسا کہ حدیث: (712) میں ہے۔٭ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابوبکر کی اقتدا کررہے تھے۔ اس صورت میں دو امام ہوں گے: ایک رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ابوبکر ؓ ۔ ٭ حضرت ابوبکر ؓ امام تھے اور رسول اللہ ﷺ مقتدی کی حیثیت سے معذوری کی بنا پر بائیں جانب بیٹھے تھے، لیکن یہ آخری احتمال بہت بعید ہے کیونکہ مقتدی امام کی دائیں جانب ہوتا ہے۔ یہ عذر کہ معذوری کی وجہ سے بائیں جانب بیٹھے تھے، یہ اتنا وزنی نہیں، کیونکہ جب بیٹھنا ہے تو پھر دائیں یا بائیں بیٹھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس لیے ہماری رائے کے مطابق یہ آخری احتمال مردوداور ناقابل اعتبار ہے۔ دوسرے احتمال کی حیثیت بھی انتہائی مخدوش ہے، کیونکہ کسی جماعت میں بیک وقت دو امام ہوں اس کا ثبوت سرے سے موجود نہیں۔ ظاہری الفاظ سے شریعت سے اس قدر ہٹا ہوا مسئلہ کشید نہیں کیا جاسکتا۔ بعض حضرات نے امام بخاری ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا رجحان دوسرے احتمال کی طرف ہے۔ امام بخاری ؒ کی جلالت شان اس قسم کے احتمالات سے بالاتر ہے۔ اس قسم کے احتمالات سخن سازی کے علاوہ کچھ نہیں۔ سیدھی اور صاف بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے افعال و اعمال کی اقتدا کر رہے تھے اور ان کی تکبیرات کو لوگوں تک پہنچانے والے تھے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
705
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
713
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
713
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
713
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
مذکورہ تعلیق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے وقت اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پیچھے ہٹے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "آگے آؤ اور میری اقتدا کرو،تمھارے بعد والے تمھاری اقتدا کریں گے۔"(صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث:982(438))
اور آنحضرت ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ( پہلی صف والوں سے ) فرمایا تم میری پیروی کرو اور تمہارے پیچھے جو لوگ ہیں وہ تمہاری پیروی کریں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو حضرت بلال ؓ آپ کے پاس نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ میں نے حضرت حفصہ ؓ سے کہا کہ آپ عرض کریں کہ حضرت ابوبکر ؓ ایک نرم دل انسان ہیں، اس لیے جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے، لہذا اگر آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں (تو بہتر ہے)۔ آپ نے فرمایا: ’’تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہتی ہو۔ ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ جب حضرت ابوبکر ؓ نے نماز کا آغاز کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اندر کچھ تخفیف محسوس فرمائی، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور دو آدمیوں کے سہارے چل پڑے۔ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے تاآنکہ آپ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر ؓ نے آپ کی آہٹ سنی تو پیچھے ہٹنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ فرمایا: (کہ پیچھے نہ ہٹیں)۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر ؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے۔ (گویا) حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کرتے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں تھے۔
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کے رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات کے وقت والی امامت کے متعلق درج ذیل تین احتمالات ہو سکتے ہیں:٭ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابو بکر ؓ ایک مبلغ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی تکبیرات لوگوں تک پہنچاتے تھے، جیسا کہ حدیث: (712) میں ہے۔٭ حضرت ابو بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابوبکر کی اقتدا کررہے تھے۔ اس صورت میں دو امام ہوں گے: ایک رسول اللہ ﷺ اور دوسرے ابوبکر ؓ ۔ ٭ حضرت ابوبکر ؓ امام تھے اور رسول اللہ ﷺ مقتدی کی حیثیت سے معذوری کی بنا پر بائیں جانب بیٹھے تھے، لیکن یہ آخری احتمال بہت بعید ہے کیونکہ مقتدی امام کی دائیں جانب ہوتا ہے۔ یہ عذر کہ معذوری کی وجہ سے بائیں جانب بیٹھے تھے، یہ اتنا وزنی نہیں، کیونکہ جب بیٹھنا ہے تو پھر دائیں یا بائیں بیٹھنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس لیے ہماری رائے کے مطابق یہ آخری احتمال مردوداور ناقابل اعتبار ہے۔ دوسرے احتمال کی حیثیت بھی انتہائی مخدوش ہے، کیونکہ کسی جماعت میں بیک وقت دو امام ہوں اس کا ثبوت سرے سے موجود نہیں۔ ظاہری الفاظ سے شریعت سے اس قدر ہٹا ہوا مسئلہ کشید نہیں کیا جاسکتا۔ بعض حضرات نے امام بخاری ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کا رجحان دوسرے احتمال کی طرف ہے۔ امام بخاری ؒ کی جلالت شان اس قسم کے احتمالات سے بالاتر ہے۔ اس قسم کے احتمالات سخن سازی کے علاوہ کچھ نہیں۔ سیدھی اور صاف بات یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ امام تھے اور حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے افعال و اعمال کی اقتدا کر رہے تھے اور ان کی تکبیرات کو لوگوں تک پہنچانے والے تھے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: "تم لوگ میری اقتدا کرو اور تمہارے بعد والے تمہاری اقتدا کریں۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومعاویہ محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے۔ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال ؓ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو (شدت گریہ کی وجہ سے) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر ؓ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ ؓ سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے تو آنحضور ﷺ نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم ﷺ ابوبکر ؓ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر۔ ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر ؓ کی اقتداء۔
حدیث حاشیہ:
اسی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ حضرت ابوبکر ؓ خود مقتدی تھے، لیکن دوسرے مقتدیوں نے ان کی اقتدا کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): When Allah's Apostle (ﷺ) became seriously ill, Bilal (RA) came to him for the prayer. He said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer." I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Abu Bakr (RA) is a soft-hearted man and if he stands in your place, he would not be able to make the people hear him. Will you order 'Umar (to lead the prayer)?" The Prophet (ﷺ) said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer." Then I said to Hafsah (RA), "Tell him, Abu i Bakr is a soft-hearted man and if he stands in his place, he would not be able to make the people hear him. Would you order 'Umar to lead the prayer?' " Hafsah (RA) did so. The Prophet (ﷺ) said, "Verily you are the companions of Joseph. Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer." So Abu- Bakr stood for the prayer. In the meantime Allah's Apostle (ﷺ) felt better and came out with the help of two persons and both of his legs were dragging on the ground till he entered the mosque. When Abu Bakr (RA) heard him coming, he tried to retreat but Allah's Apostle (ﷺ) beckoned him to carry on. The Prophet (ﷺ) sat on his left side. Abu Bakr (RA) was praying while standing and Allah's Apostle (ﷺ) was leading the prayer while sitting. Abu Bakr (RA) was following the Prophet (ﷺ) and the people were following Abu Bakr (RA) (in the prayer).