Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: The Khutba after the Eid prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
965.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے پہلی چیز جس سے ہم آج کے دن کا آغاز کریں وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر گھروں کو واپس ہوں اور قربانی کریں، جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کی تو وہ صرف گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا، قربانی نہیں ہے۔‘‘ انصار کے ایک آدمی نے کہا جسے ابوبردہ بن نیار کہا جاتا تھا: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کا جانور ذبح کر چکا ہوں، اب میرے پاس ایک سالہ بکری کا ایک بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے اس کی جگہ ذبح کر دو مگر تمہارے بعد کسی دوسرے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ ہدایات نماز سے قبل ارشاد فرمائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نماز سے پہلے خطبہ دیا ہو گا، چنانچہ بقول ابن بطال امام نسائی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (صلاة العيدين قبل الخطبة) ’’نماز سے پہلے خطبہ دینا‘‘ حالانکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے کیونکہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ دیتے ہوئے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ عید کے دن پہلا کام نماز ادا کرنا ہے۔ عرب کے ہاں یہ اسلوب عام ہے کہ ماضی کی جگہ فعل مستقبل کو استعمال کر لیتے ہیں۔ اس موقف کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن بقیع (عیدگاہ) کی طرف گئے، دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اس دن ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر گھر لوٹ کر قربانی کریں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:976) اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ خطبے میں ارشاد فرمائے تھے۔ (2) حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدالاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمیں خطبہ دیا کہ جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:955) ان حقائق کی روشنی میں اس حدیث سے تقدیم خطبہ کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے۔ (فتح الباري:585/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
951
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
965
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
965
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
965
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے دور سے پہلے سب و شتم پر مشتمل خطبات عید زبردستی سنانے کے لیے سرکاری سطح پر خطبۂ عید کو نماز عید سے پہلے کر دیا گیا تھا تاکہ حاضرین میں سے کوئی بھی اٹھ کر نہ جا سکے۔ اگرچہ اس وقت اس تحریک کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور کتاب و سنت کے حاملین نے اسے برملا خلاف سنت کہا، یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خطبہ بعد از نماز کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مستقل طور پر یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت متعدد احادیث ذکر کی ہیں تاکہ خلفائے بنو امیہ کے غلط تعامل سے پیدا شدہ غلط فہمی اچھی طرح دور ہو جائے۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے پہلی چیز جس سے ہم آج کے دن کا آغاز کریں وہ یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر گھروں کو واپس ہوں اور قربانی کریں، جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کی تو وہ صرف گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کیا، قربانی نہیں ہے۔‘‘ انصار کے ایک آدمی نے کہا جسے ابوبردہ بن نیار کہا جاتا تھا: اللہ کے رسول! میں تو قربانی کا جانور ذبح کر چکا ہوں، اب میرے پاس ایک سالہ بکری کا ایک بچہ ہے جو دو دانتے سے بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے اس کی جگہ ذبح کر دو مگر تمہارے بعد کسی دوسرے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ ہدایات نماز سے قبل ارشاد فرمائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے نماز سے پہلے خطبہ دیا ہو گا، چنانچہ بقول ابن بطال امام نسائی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: (صلاة العيدين قبل الخطبة) ’’نماز سے پہلے خطبہ دینا‘‘ حالانکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے کیونکہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ دیتے ہوئے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ عید کے دن پہلا کام نماز ادا کرنا ہے۔ عرب کے ہاں یہ اسلوب عام ہے کہ ماضی کی جگہ فعل مستقبل کو استعمال کر لیتے ہیں۔ اس موقف کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدالاضحیٰ کے دن بقیع (عیدگاہ) کی طرف گئے، دو رکعت نماز عید ادا کی، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اس دن ہماری پہلی عبادت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر گھر لوٹ کر قربانی کریں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:976) اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ خطبے میں ارشاد فرمائے تھے۔ (2) حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدالاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمیں خطبہ دیا کہ جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:955) ان حقائق کی روشنی میں اس حدیث سے تقدیم خطبہ کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے۔ (فتح الباري:585/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زبید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے براء بن عازب نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہم اس دن پہلے نماز پڑھیں گے پھر خطبہ کے بعد واپس ہو کر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق عمل کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس کا ذبیحہ گوشت کا جانور ہے جسے وہ گھر والوں کے لیے لایا ہے، قربانی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک انصاری ؓ جن کا نام ابوبردہ بن نیار تھا بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے تو (نماز سے پہلے ہی) قربانی کر دی لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو دوندی ہوئی بکری سے بھی اچھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا اسی کو بکری کے بدلہ میں قربانی کرلو اور تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں لفظ أول ما نبدأ في یومنا ھذا سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جب پہلا کام نماز ہوا تو معلوم ہوا کہ نماز خطبے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The first thing that we should do on this day of ours is to pray and then return to slaughter the sacrifice. So anyone who does so, he acted according to our Sunna (tradition), and whoever slaughtered the sacrifice before the prayer, it was just meat which he presented to his family and would not be considered as Nusuk." A person from the Ansar named Abu Burda bin Niyyar said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I slaughtered the Nusuk (before the prayer) but I have a young she-goat which is better than an older sheep." The Prophet (ﷺ) I said, "Sacrifice it in lieu of the first, but it will be not sufficient (as a sacrifice) for anybody else after you."