Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: Superiority of deeds on the days of Tashriq)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور ابن عباسؓ نے کہا کہ` (اس آیت)”اور اللہ تعالیٰ کا ذکر معلوم دنوں میں کرو“میں ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں اوراأيام المعدودات سے مراد ایام تشریق ہیں۔ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان بزرگوں کی تکبیر(تکبیرات)سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے
969.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’‘جو عمل ان (دس) دنوں میں کیا جائے، اس کے مقابلے میں دوسرے دنوں کا کوئی عمل افضل نہیں ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: کیا جہاد بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جہاد بھی ان کے برابر نہیں سوائے اس شخص کے جس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا اور کوئی چیز واپس لے کر نہ لوٹا۔‘‘
تشریح:
(1) اہل لغت اور اہل فقہ کے نزدیک قربانی کے دن، یعنی دسویں ذوالحجہ کے بعد ایام تشریق شروع ہوتے ہیں، لیکن تشریق کی وجہ تسمیہ کا تقاضا ہے کہ دسویں ذوالحجہ کو ایام تشریق میں شامل کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین اقوال ہیں: ٭ گوشت کاٹ کر دھوپ میں ڈالا جاتا تھا تاکہ وہ خشک ہو جائے۔ ٭ نماز عید دن چڑھے پڑھتے تھے، اس لیے اس تشریق کہا جاتا ہے۔ ٭ دور جاہلیت میں مشرکین کہتے تھے کہ اے سورج! جلدی طلوع ہو تاکہ ہم قربانی کریں۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل یوم تشریق تو عید کا دن ہے اور باقی دنوں کو اس کی ماتحتی میں ایام تشریق میں شامل کیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے نزدیک اس روایت میں ایام سے مراد ایام تشریق ہیں اور ان دنوں کے عمل سے مراد اللہ أکبر کہنا اور ذکر الٰہی کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تکبیرات کہنے کے متعلق مختلف آثار کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن دیگر صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام سے مراد ایام عشر ہیں، تو بھی مطابقت اس طرح ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک دسویں تاریخ ایام تشریق سے ہے، اس لیے ایک دن کے اعتبار سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (3) حافظ ابن حجرؒ نے عنوان سے مطابقت کے لیے ایک دوسرا پہلو اختیار کیا ہے کہ ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ ان میں افعال حج ادا ہوتے ہیں اور کچھ افعال حج ایام تشریق میں ادا کیے جاتے ہیں، اس لیے اصل فضیلت میں ایام تشریق، ایام عشر کے ساتھ اشتراک رکھتے ہیں، پھر ایام عشر کا خاتمہ ایام تشریق کا افتتاحیہ ہے، اس بنا پر ان ایام کی فضیلت ہے اور یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے۔ (فتح الباري:592/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
955
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
969
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
969
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
969
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
ایام تشریق سے مراد ذوالحجہ کی گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کے دن ہیں۔ اکثر لوگ عید کی وجہ سے ان دنوں کی بڑی غفلت کے ساتھ گزارتے ہیں، لہذا شریعت میں ان دنوں کی عبادت کو بڑی فضیلت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس تعلیق کو عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں متصل سند سے بیان کیا ہے لیکن حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کے عمل کو متصل سند سے کسی بھی حدیث کی کتاب میں بیان نہیں کیا گیا۔ امام بیہقی اور امام بغوی نے بھی اسے معلق ہی بیان کیا ہے۔ چونکہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں اور ایام تشریق میں اعمال حج ادا ہوتے ہیں، اس اشتراک کی وجہ سے ایام تشریق کے عنوان کے تحت ایام عشر کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ (فتح الباری:2/590) امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ عنوان تو ایام تشریق میں عمل کی فضیلت سے متعلق ہے جبکہ اس کے تحت ایسے آثار پیش کیے گئے ہیں جن میں ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت کا ذکر ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے اس کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایسا اپنی عادت کے مطابق کیا ہے کہ وہ ایک عنوان قائم کرتے ہیں، پھر معمولی مناسبت کی وجہ سے غیر متعلق آثار اس کے تحت لے آتے ہیں۔ (عمدۃ القاری:5/183) محمد بن علی سے مراد حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت محمد باقر ہیں۔ اس اثر کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المؤتلف" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ ابو وہنہ رزیق مدنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حج کے دنوں منیٰ میں حضرت محمد بن علی کو دیکھا کہ وہ ایام تشریق میں نفلی نماز کے بعد بھی تکبیرات کہتے تھے۔ (عمدۃ القاری:6/184)
´اور ابن عباسؓ نے کہا کہ` (اس آیت) ”اور اللہ تعالیٰ کا ذکر معلوم دنوں میں کرو“ میں ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور اأيام المعدودات سے مراد ایام تشریق ہیں۔ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان بزرگوں کی تکبیر (تکبیرات) سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’‘جو عمل ان (دس) دنوں میں کیا جائے، اس کے مقابلے میں دوسرے دنوں کا کوئی عمل افضل نہیں ہے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: کیا جہاد بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’جہاد بھی ان کے برابر نہیں سوائے اس شخص کے جس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا اور کوئی چیز واپس لے کر نہ لوٹا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اہل لغت اور اہل فقہ کے نزدیک قربانی کے دن، یعنی دسویں ذوالحجہ کے بعد ایام تشریق شروع ہوتے ہیں، لیکن تشریق کی وجہ تسمیہ کا تقاضا ہے کہ دسویں ذوالحجہ کو ایام تشریق میں شامل کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین اقوال ہیں: ٭ گوشت کاٹ کر دھوپ میں ڈالا جاتا تھا تاکہ وہ خشک ہو جائے۔ ٭ نماز عید دن چڑھے پڑھتے تھے، اس لیے اس تشریق کہا جاتا ہے۔ ٭ دور جاہلیت میں مشرکین کہتے تھے کہ اے سورج! جلدی طلوع ہو تاکہ ہم قربانی کریں۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل یوم تشریق تو عید کا دن ہے اور باقی دنوں کو اس کی ماتحتی میں ایام تشریق میں شامل کیا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے نزدیک اس روایت میں ایام سے مراد ایام تشریق ہیں اور ان دنوں کے عمل سے مراد اللہ أکبر کہنا اور ذکر الٰہی کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تکبیرات کہنے کے متعلق مختلف آثار کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن دیگر صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام سے مراد ایام عشر ہیں، تو بھی مطابقت اس طرح ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک دسویں تاریخ ایام تشریق سے ہے، اس لیے ایک دن کے اعتبار سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (3) حافظ ابن حجرؒ نے عنوان سے مطابقت کے لیے ایک دوسرا پہلو اختیار کیا ہے کہ ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ ان میں افعال حج ادا ہوتے ہیں اور کچھ افعال حج ایام تشریق میں ادا کیے جاتے ہیں، اس لیے اصل فضیلت میں ایام تشریق، ایام عشر کے ساتھ اشتراک رکھتے ہیں، پھر ایام عشر کا خاتمہ ایام تشریق کا افتتاحیہ ہے، اس بنا پر ان ایام کی فضیلت ہے اور یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے۔ (فتح الباري:592/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ (وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ) "معلوم دنوں میں اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کریں۔" میں ایام معلومات سے مراد ذوالحجہ کے پہلے دس دن ہیں، اور أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ سے مراد ایام تشریق ہیں۔
حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنھم ان دس دنوں میں بازار جاتے تو تکبیرات کہتے تھے، لوگ بھی ان کی تکبیرات کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے۔ اور محمد بن علی نفلی نمازوں کے بعد بھی تکبیرات کہتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے سلیمان کے واسطے سے بیان کیا، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے عبد اللہ بن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان ومال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا۔ (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)
حدیث حاشیہ:
اور ایک حنفی فتوی!ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں عبادت سال کے تمام دنوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ کہا گیا ہے کہ ذی الحجہ کے دن تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں اور رمضان کی راتوں میں سے سب سے افضل ہیں۔ ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی خاص عبادت جس پر سلف کا عمل تھا تکبیر کہنا اور روزے رکھنا ہے۔ اس عنوان کی تشریحات میں ہے کہ ابو ہریرہ ؓ اور ابن عمر ؓ جب تکبیر کہتے تو عام لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور تکبیر میں مطلوب بھی یہی ہے کہ جب کسی کہتے ہوئے کو سنیں تو ارد گرد بھی آدمی ہو ں سب بلند آواز سے تکبیر کہیں ( تفہیم البخاری ) عام طور پر برادران احناف نویں تاریخ سے تکبیر شروع کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ خود ان کے علماءکی تحقیق کے مطابق ان کا یہ طرز عمل سلف کے عمل کے خلاف ہے۔ جیسا کہ یہاں صاحب تفہیم البخاری دیوبندی حنفی نے صاف لکھا ہے کہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں تکبیر کہنا سلف کا عمل تھا ( اللہ نیک توفیق دے ) آمین۔ بلکہ تکبیروں کا سلسلہ ایام تشریق میں بھی جاری ہی رہنا چاہیے جو گیارہ سے تیرہ تاریخ تک کے دن ہیں۔ تکبیر کے الفاظ یہ ہیں: اللہ أکبر اللہ أکبر لا إله إلا اللہ واللہ أکبر اللہ أکبر وللہ الحمد اور یوں بھی مروی ہیں: اللہ أکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرة وأصیلا.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "No good deeds done on other days are superior to those done on these (first ten days of Dhul Hijja)." Then some companions of the Prophet (ﷺ) said, "Not even Jihad?" He replied, "Not even Jihad, except that of a man who does it by putting himself and his property in danger (for Allah's sake) and does not return with any of those things."