Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To greet is a part of Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عمار نے کہا کہ جس نے تین چیزوں کو جمع کر لیا اس نے سارا ایمان حاصل کر لیا۔ اپنے نفس سے انصاف کرنا، سلام کو عالم میں پھیلانا اور تنگ دستی کے باوجود راہ اللہ میں خرچ کرنا۔
28.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم کھانا کھلاؤ، آشنا اور نا آشنا، سب کو سلام کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں حقیقی اسلام کی علامت اس بات کو قراردیا گیا ہے کہ مسلمان سلام کی کثرت کرتا ہو، یعنی سلام کو تعارف یا کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہ کرے بلکہ ہر سامنے آنے والے کو سلام کرے۔ لیکن اس میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی۔ نیز جو اپنی بد کرداری کی وجہ سے خود کو دعائے سلامتی کا مستحق نہ بنائے اسے بھی سلام کرنا درست نہیں، جیسے کوئی شخص علانیہ زنا کرتا اور شراب پیتا ہو تو وہ مستحق سلام نہیں ہے۔ اگر فاسق صاحب اقتدار ہو اور اندیشہ ہو کہ اگر میں نے اسے سلام نہ کیا تو یہ میرے پیچھے پڑجائے گا تو ایسی صورت میں سلام کی اجازت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
28
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
28
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
28
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
28
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اس باب سے بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے کیونکہ یہ حضرات تو بڑے بڑے اعمال کو بھی ایمان سے خارج سمجھتے ہیں لیکن یہاں معمولی عمل کو بھی ایمان میں شمار کیا گیا ہے اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال زریں کو بطور دلیل پیش کیا ہے جنھیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان میں اور ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مصنف میں موصولاً بیان کیا ہے(المصنف لابن ابی شیبہ 10/317(طبع مکتبہ الرشد)ان باتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تکمیل ایمان کا دارو مدار انھی پر ہے کیونکہ جو انسان اپنے ساتھ انصاف کرنے کا خوگرہوگا وہ اپنے آقا کے حقوق سے آگاہ ہوگا اور انھیں ادا کرنے میں لذت محسوس کرے گا۔ پھر اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہیں کرے گا۔ اور سلام کی اشاعت بھی اچھی عادتوں اور پسندیدہ خصلتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔اس سے باہمی الفت و محبت اور یگانگت پیدا ہوتی ہے۔تنگی کے وقت اللہ کی راہ میں دینا اس سے اللہ پر اعتماد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایسی جامع باتیں ہیں جو ارشادات رسول کے مشابہ ہیں جن کو جوامع الکلم سے نوازا گیا تھا۔( فتح الباری: 1/113۔)
عمار نے کہا کہ جس نے تین چیزوں کو جمع کر لیا اس نے سارا ایمان حاصل کر لیا۔ اپنے نفس سے انصاف کرنا، سلام کو عالم میں پھیلانا اور تنگ دستی کے باوجود راہ اللہ میں خرچ کرنا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تم کھانا کھلاؤ، آشنا اور نا آشنا، سب کو سلام کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں حقیقی اسلام کی علامت اس بات کو قراردیا گیا ہے کہ مسلمان سلام کی کثرت کرتا ہو، یعنی سلام کو تعارف یا کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہ کرے بلکہ ہر سامنے آنے والے کو سلام کرے۔ لیکن اس میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی۔ نیز جو اپنی بد کرداری کی وجہ سے خود کو دعائے سلامتی کا مستحق نہ بنائے اسے بھی سلام کرنا درست نہیں، جیسے کوئی شخص علانیہ زنا کرتا اور شراب پیتا ہو تو وہ مستحق سلام نہیں ہے۔ اگر فاسق صاحب اقتدار ہو اور اندیشہ ہو کہ اگر میں نے اسے سلام نہ کیا تو یہ میرے پیچھے پڑجائے گا تو ایسی صورت میں سلام کی اجازت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمار ؓ فرماتے ہیں: تین خصلتیں ایسی ہیں جس نے انہیں جمع کر لیا اس نے ایمان مکمل کر لیا: اپنے نفس سے انصاف کرنا، دنیا میں سلام پھیلانا اور تنگ دستی کے باوجود اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انھوں نے یزید بن ابی حبیب سے، انھوں نے ابوالخیر سے، انھوں نے عبداللہ بن عمروؓ سے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری یہاں بھی مرجیہ کی تردید فرما رہے ہیں کہ اسلام کے معمولی اعمال صالحہ کو بھی ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا مرجیہ کا مذہب باطل ہے۔ کھانا کھلانا اور اہل اسلام کو عام طور پر سلام کرنا الغرض جملہ اعمال صالحہ کو ایمان کہا گیا ہے اور حقیقی اسلام بھی یہی ہے۔ ان اعمال صالحہ کے کم وبیش ہونے پر ایمان کی کمی وبیشی منحصرہے۔ اپنے نفس سے انصاف کرنا یعنی اس کے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا اور حقوق اللہ وحقوق العباد کے بارے میں اس کا محاسبہ کرتے رہنا مراد ہے اور اللہ کی عنایات کا شکرادا کرنا اور ا س کی اطاعت وعبادت میں کوتاہی نہ کرنا بھی نفس سے انصاف کرنے میں داخل ہے۔ نیز ہر وقت ہرحال میں انصاف مدنظر رکھنا بھی اسی ذیل میں شامل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): A person asked Allah's Apostle (ﷺ): "What (sort of) deeds in or (what qualities of) Islam are good"? He replied, "To feed (the poor) and greet those whom you know and those whom you don't know".