تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی پناہ دے وہ اس بات کا التزام کرلیتا ہے کہ جس کو پناہ دی گئی ہے اسے کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔گویا وہ اس کا ضامن ہوتا ہے کہ اسے کسی قسم کی تکلیف سے دوچار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امام بخاری ؒ نے صرف اسی مقصد کےلیے اس طویل حدیث کو ذکر کیا ہے۔ (2) اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب کسی مومن کو ظالم سے خطرہ ہوتو وہ ایسے شخص کی پناہ حاصل کرسکتا ہے جو اس کی حفاظت کرے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص عزیمت کو اختیار کرتے ہوئے صرف اللہ پر توکل کرتا ہے اور کسی کا سہارا تلاش نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے لوگوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: اس مقام پر مذکورہ حدیث لانے کی غرض یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ ابن دغنہ کی ضمانت اور اس کے امان دینے پر راضی ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے برقرار رکھا۔ اور اسے کتاب الکفالہ میں لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث سے شخصی ضمانت ثابت ہوتی ہے۔ گویا جس نے انھیں پناہ دی تھی اس نے آپ کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری اٹھائی کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف سے دوچار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ (فتح الباري:600/4)