قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ الكَفَالَةِ (بَابُ جِوَارِ أَبِي بَكْرٍ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَقْدِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2297. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيْ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا قِبَلَ الْحَبَشَةِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمِي فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ فَأَعْبُدَ رَبِّي قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ إِنَّ مِثْلَكَ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ فَإِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ وَأَنَا لَكَ جَارٌ فَارْجِعْ فَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبِلَادِكَ فَارْتَحَلَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَرَجَعَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَطَافَ فِي أَشْرَافِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلَا يُخْرَجُ أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يُكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ وَيَحْمِلُ الْكَلَّ وَيَقْرِي الضَّيْفَ وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَأَنْفَذَتْ قُرَيْشٌ جِوَارَ ابْنِ الدَّغِنَةِ وَآمَنُوا أَبَا بَكْرٍ وَقَالُوا لِابْنِ الدَّغِنَةِ مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَلْيُصَلِّ وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ وَلَا يُؤْذِينَا بِذَلِكَ وَلَا يَسْتَعْلِنْ بِهِ فَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا قَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لِأَبِي بَكْرٍ فَطَفِقَ أَبُو بَكْرٍ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَلَا يَسْتَعْلِنُ بِالصَّلَاةِ وَلَا الْقِرَاءَةِ فِي غَيْرِ دَارِهِ ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَبَرَزَ فَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ يَعْجَبُونَ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ حِينَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا لَهُ إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَإِنَّهُ جَاوَزَ ذَلِكَ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَأَعْلَنَ الصَّلَاةَ وَالْقِرَاءَةَ وَقَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا فَأْتِهِ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يُعْلِنَ ذَلِكَ فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ فَإِنَّا كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لِأَبِي بَكْرٍ الِاسْتِعْلَانَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ وَإِمَّا أَنْ تَرُدَّ إِلَيَّ ذِمَّتِي فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ رَأَيْتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ حِينَ ذَكَرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ بَعْضُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ هَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ قَالَ نَعَمْ فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ

مترجم:

2297.

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ (اُم المومنین) حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو اسی دین اسلام پر پایا اور ہم پر کوئی دن نہیں گزرتا تھا مگر رسول اللہ ﷺ صبح و شام دونوں وقت ہمارے ہاں تشریف لاتے تھے۔ جب مسلمانوں کا ابتلا بہت شدید ہو گیا تو حضرت ابو بکر  ؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے نکلے یہاں تک کہ جب وہ "برک غماد" پہنچے تو انھیں ابن دغنہ ملا جو قارہ قبیلے کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابو بکر  ؓ !کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت ابو بکر  ؓ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی زمین میں گھوم پھر کر اس کی عبادت کرتا رہوں۔ ابن دغنہ نے کہا: تم جیسا کوئی شخص نہ نکلتا ہے اور نہ ہی نکالا جا تا ہے کیونکہ تم غریبوں کی اعانت کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، لوگوں کا بار (بوجھ) اٹھاتے ہو، مہمانوں کو کھانا کھلاتےہو اور حق پر ثابت رہنے کی وجہ سے کسی پر آنے والے مسائل وہ مشکلات میں ان کی مدد کرتے ہو۔ آؤ میں تمھیں پناہ دیتا ہوں۔ گھرواپس چلے آؤ اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کرو، چنانچہ ابن دغنہ وہاں سے روانہ ہوا اور حضرت ابو بکر  ؓ کے ساتھ واپس آگیا۔ اس کے بعد ابن دغنہ گھوم پھر کر کفار قریش کے سرداروں سے ملااور ان سے کہنے لگا کہ ابو بکر  ؓ جیسا انسان نہ خود نکل سکتا ہے اور نہ ہی اسے نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہو جو بے بس لوگوں کے لیے کمائی کرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، عاجز اور مجبور لوگوں کا بوجھ اٹھاتا ہے، مہمانوں کو کھانا کھلاتا ہے اور حق پر ثابت قدم رہنے والے پر آنے والی مشکلات میں اس کی مددکرتا ہے؟چنانچہ قریش نے ابن دغنہ کی پناہ کو مان لیا اور ابو بکر  ؓ  کو امان دے دی لیکن ابن دغنہ سے انھوں نے کہا کہ آپ انھیں خبردار کردیں کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں، نماز پڑھیں اور جو چاہیں قرآءت کریں مگر ہمیں اذیت نہ دیں اور نہ اس کا اعلان ہی کریں کیونکہ ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہمارے بچوں اور عورتوں کو فتنہ میں مبتلا کردیں گے۔ ابن دغنہ نے یہ سب کچھ حضرت ابو بکر  ؓ سے کہہ دیا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر  اپنے گھر میں عبادت کرنے لگے اور علانیہ اپنے گھرکے سواکسی دوسری جگہ نماز اور قرآن پڑھنا چھوڑدیا۔ پھر انھیں خیال آیا تو انھوں نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی اور باہر نکل کروہاں نماز پڑھنا شروع کردی۔ وہ جب وہاں قرآن پڑھتے تو ان کے پاس مشرکین کے بچوں اور عورتوں کا ہجوم ہوجاتا۔ وہ تعجب کرتے اور انھیں غور سے دیکھتے۔ حضرت ابو بکر صدیق  ؓ بہت رونے والے انسان تھے۔ وہ جب قرآن پڑھتے تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکتے تھے، اس چیز نے مشرکین کے سرداروں کو گھبراہٹ میں ڈال دیا تو انھوں نے ابن دغنہ کو پیغام بھیجا۔ وہ آیا تو انھوں نے اس سے کہا: ہم نے ابو بکر کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں۔ لیکن انھوں نے اس سے آگے ایک اور قدم بڑھا لیا ہے۔ اور اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنا لی ہے، اس میں علانیہ طور پر نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے ہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ وہ اس طرح ہمارے بچوں اور عورتوں کو فتنے میں مبتلا کردیں گے۔ تو ان کے پاس جاؤ اگر وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرنے پر قناعت کریں تو ٹھیک ہے اور اگر وہ اس پر راضی نہیں اور علانیہ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ وہ تمھیں تمھارا عہد (اور ذمہ) واپس کردیں کیونکہ ہمیں تمھاری امان توڑنا اچھا معلوم نہیں ہوتا اور نہ ہمیں ابو بکر کا اس طرح علانیہ عبادت کرنا ہی گواراہے۔ حضرت عائشہ  ؓ فرماتی ہیں کہ ابن دغنہ حضرت ابو بکر  ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ جانتے ہیں کہ جس شرط پر میں نے آپ کا ذمہ لیا تھا یا تو آپ اسی شرط پر قائم رہیں بصورت دیگر میرا ذمہ میرے حوالے کردیں، کیونکہ یہ بات مجھے قطعاًگوارانہیں کہ اہل عرب کے ہاں اس بات کا چرچا ہو کہ میں نے ایک شخص کا ذمہ لیا تھا جس کو توڑدیا گیا۔ حضرت ابو بکر  ؓ نے کہا: میں تیرا ذمہ تیرےحوالے کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ پر راضی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت مکہ ہی میں تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے تمھاری ہجرت کا مقام دکھایا گیا ہے۔ میں نے دو پتھریلے میدانوں کے درمیان کھجور کے درختوں پر مشتمل کلر والی زمین دیکھی ہے۔‘‘ جب مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سنی تو جن لوگوں (مسلمانوں)نےہجرت کرنی چاہی وہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر گئے اور بعض لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)جو ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ کی طرف لوٹ آئے۔ حضرت ابو بکرصدیق  ؓ نے بھی ہجرت کی تیاری شروع کردی تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ’’ابھی ذراٹھہرو۔ (جلدی نہ کرو)کیونکہ امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں!کیا آپ بھی ہجرت کے امیدوار ہیں؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ تو حضرت ابو بکر  ؓ  آپ نے ساتھ ہجرت کرنے کے لیے رک گئے۔ چنانچہ انھوں نے دو اونٹنیاں اس سفر کے لیے خاص طور پر رکھیں اور چار مہینے تک انھیں کیکر کے پتے بطور چارہ کھلاتے رہے۔