تشریح:
اس باب کی روایات کا حاصل یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں نماز میں حسب ضرورت کلام کرنے کی اجازت تھی، اس کے پیش نظر بعض صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، سلام کیا، لیکن اس وقت نماز میں کلام کرنے سے روکا جا چکا تھا، اس لیے آپ نے لفظاً سلام کا جواب نہیں دیا، صرف اشارے سے سلام کا جواب دیا اور سلام پھیرنے کے بعد آپ نےبعض صحابہ سے اعتذار بھی کیا کہ آپ نے لفظاً سلام کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ اب نماز میں کلام کرنا ممنوع ہوچکا ہے، تاہم اس کے باوجود آپ نے اشارے سے جواب دیا۔ فقہائے محدثین اور شارحین حدیث نے ان احادیث سے یہی استدلال کیا ہے کہ نمازی کو سلام کرنا جائز ہے، اسے ممنوع قرار دینا صریح احادیث کے خلاف ہے۔ دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووي، باب تحریم الکلام: ۵/۳۷، وسبل السلام، باب شروط الصلاة: ۱/۲۶۴، و عون المعبود، باب رد السلام: ۲/۲۹۲، والسنن الکبریٰ للبیھقي، باب الإشارة برد السلام، و باب کیفیة الإشارة بالید: ۲/۲۵۸-۲۶۰، وغیرھا) باقی رہا یہ مسئلہ کہ جواب میں اشارہ کس طرح کیا جائے گا؟ تو احادیث ہی میں اس کی چار شکلیں مذکور ہیں، ہتھیلی کے ساتھ، ہاتھ کے ساتھ، انگلی کے ساتھ اور سر کے ساتھ، اس لیے یہ ساری شکلیں جائز ہیں۔ دیکھیے (عون المعبود، باب رد السلام: ۲/۲۹۲)