تشریح:
(1) پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا عذاب قبر کا سبب ہے۔ یہ بات دیگر روایات میں بھی بیان کی گئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا علم نہ ہوگا یا یہ واقعہ پہلے کا ہے جیسا کہ حدیث کے آخر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس کے بعد ہمیشہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے۔
(2) ”چمڑا اور کپڑا کاٹتے تھے۔“ چمڑے سے مراد بھی پہنا ہوا چمڑا ہے جسے پیشاب لگتا تھا نہ کہ اپنے جسم کا چمڑا کیونکہ پیشاب تو نکلتا ہی جسم سے ہے اور اس کا جسم کو لگنا لازمی ہے، تبھی تو استنجا ضروری ہے۔ اگر وہاں دھونا کفایت کرتا تھا تو جسم کے دیگر حصوں کو بھی کاٹنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں، ملبوس کپڑا یا چمڑا چونکہ جسم سے جدا ہے، اسے پیشاب کے قطرے لگنا انسان کی غلطی اور سستی کا نتیجہ ہے، لہٰذا انھیں کاٹنے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ بعض علماء نے اس سے جسم کا چمڑا بھی مراد لیا ہے مگر یہ درست نہیں۔ ویسے بھی یہ تکلیف مالا یطاق ہے، یعنی اس پرعمل ناممکن ہے۔ بعض روایات میں [جسد] کا لفظ بھی آیا ہے۔ لیکن یہ عاصم بن بہدلہ کا وہم ہے کہ اس نے نسخ سے جسم کا چمڑا سمجھا اور پھر اس کی جگہ لفظ [جسد] (جسم) بول دیا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ”جسد احدھم“ کو منکر کہا ہے۔ دیکھیے: (ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم الحدیث: ۵) (شاذ (بات) کی تاویل کی جانی چاہیے، عقلا شاذ ہو یا نقلا“ وہ غیر معتبر ہے۔ (مزید دیکھیے، حدیث: ۳۰ کا فائدہ نمبر: ۳)
(3) ”جبریلؑ میکائیلؑ، اسرافیل کے رب!“ اس قسم کے الفاظ سے مقصود رب تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہے، یعنی اتنی عظیم الشان مخلوق کو پیدا کرنے والا۔ اسی طرح آسمانوں، زمینوں کے رب برحق، مغرب کے رب وغیرہ۔