تشریح:
(1) یہاں ”تورات“ سے مراد وہ کتاب نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی کیونکہ وہ کتاب تو حضرت داود علیہ السلام سےبہت پہلے کی ہے۔ اس میں ان کا تذکرہ (مندرجہ بالا صورت میں) کیسے آسکتا ہے؟ یہاں تورات سےصحف مراد ہیں جو بہت سےانبیاء پر اترے اور ان میں ”زبور“ بھی شامل ہے جو خود حضرت داود علیہ السلام پر اتری۔ آج کل ان تمام صحف کے مجموعہ کو بائبل کہتے ہیں۔ اس میں تورات بھی آ جاتی ہے، بلکہ اس میں ان انبیاء علیہم السلام کے شاگردوں کی باتیں بھی داخل ہیں، حتیٰ کہ یہ تعین مشکل ہے کہ اس میں کون سا کلام اللہ تعالیٰ کا ہے اور کون سا انبیاء کا یا انکے شاگردوں کا؟ یہ امتیاز صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ اللہ کی کتاب کلیتاً ممتاز ہے، کسی دوسرے کا ایک لفظ بھی اس میں شامل نہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں (اقوال و افعال) اپنی جگہ الگ ممتاز اور واضح ہیں۔ آپ کے شاگردانِ رشید کے فتاوی و بیانات بالکل الگ ہیں۔ کوئی کسی سے خلط ملط نہیں۔ والحمد للہ علی ذالك۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ داود علیہ السلام کی شریعت میں بھی نماز مشروع تھی۔
(3) ”دین“ انسان کے لیے بچاؤ کا ذریعہ ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت کی تمام مکروہات سے بچاتا ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کے سامنے آہ و زاری کرتا رہے اور اپنے دین کی درستی کے لیے دعا مانگتا رہے۔
(4) دنیا انسان کے زندگی گزارنے کا سبب ہے اور پاکیزہ معاش انسان کو جنت میں لے جانے کا سبب ہے، اس لیے اپنی دنیا کی اصلاح کے لیےبھی دعا کرتے رہنا چاہیے۔