تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ والحمد للہ علی ذالك۔ حضرت حسن، حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد خلیفہ (سردار) بنائے گئے۔ آپ نصف اسلامی مملکت کے سربراہ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں فوج آپ کے ساتھ تھی۔ چالیس ہزار افراد آپ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرچکے تھے۔ دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خون ریزی کو اچھا نہ سمجھا اور صلح کا عندیہ دیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی سفید کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ طے فرمائیں، لکھ دیں۔ میرے دستخط پہلے ہی ہوچکے ہیں۔ اس طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حکومت کی قربانی دے کر امت کے ان دو عظیم گروہوں کو لڑائی سے بچا لیا۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔ ورنہ کشتوں کے پشتے لگ جاتے اور معاملہ پھر بھی حل نہ ہوتا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا امت پر یہ عظیم احسان ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ ہی انھیں دے گا کہ وہ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ صحابہ کے درمیان ہونے والی لڑائیوں کے بارے میں اہل علم نے خاموشی اختیار فرمائی ہے کہ ہمیں بزرگوں کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کسی میں غلطی اور نقص نکال کر اپنی زبانوں کو گستاخی اور گناہ سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ مغفورلھم لوگ تھے۔ انھیں جنت کی خوش خبری سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مل چکی ہے۔ ہم کون ہیں اور ان کی عیب جوئی کرنے والے۔ پھر اس دور کی صحیح تاریخ کا ملنا بھی یقینی نہیں، لہٰذا یہ معاملات اللہ خبیر و بصیر پر چھوڑ دیے جائیں۔ یہی بات برحق ہے۔
(2) خوارج کا رد ہے جو کہ دونوں گروہوں کو کافر کہتے ہیں۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کے مسلمان ہونے کی گواہی دی ہے۔
(3) لوگوں کے درمیان اصلاح بہت فضیلت والا کام ہے، خصوصاً جب خون خرابہ ہونے کا خطرہ ہو۔
(4) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رعایا پر بہت شفیق اور مہربان تھے، نیز امور مملکت میں بڑی کڑی نظر رکھتے تھے۔ آپ کا صلح کا غیر مشروط مطالبہ اس بات کی بین دلیل ہے۔
(5) کم مرتبے والا شخص، زیادہ فضیلت والے کی موجودگی میں حکمران بن سکتا ہے۔ حضرت حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہما حکمران بنے جبکہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما بدری صحابہ موجود تھے۔
(6) خلیفہ بذات خود دستبردار ہوسکتا ہے خصوصاً جبکہ یہ استغفیٰ وسیع تر قومی و ملی مفاد میں ہو۔