تشریح:
حبیب نے یہ روایت مرفوع (فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) بیان کی تھی جبکہ سفیان اسے موقوف (صحابی کا فرمان) بیان کرتے ہیں۔ دوسرے سفیان یہ روایت شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں، نیز سنن نسائی کے تمام نسخوں میں عن أبي ذر و أبي الدرداء ہے۔ یہ سند میں تصحیف ہے۔ درست بجائے واو کے او ہے، یعنی شک کے ساتھ، جیسا کہ السنن الکبریٰ للنسائی میں ہے: (۴۵۷/۱) سنن کبریٰ میں سفیان ثوری کے ساتھ سفیان بن عیینہ بھی ہیں، گویا دونوں ہی حبیب بن ابی ثابت کی مذکورہ مخالفات میں شریک ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۱۷۱/۱۸، ۱۷۲) یہ وضاحت تو سندی اختلاف کی تھی۔ رہی صحت حدیث تو بلاشک متن حدیث قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق یہ روایت موقوفاً أصح ہے، لیکن چونکہ اس میں راوی کے اجتہاد اور رائے کا دخل نہیں، اس لیے حکماً مرفوع ہے، نیز اس کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل الألباني، رقم الحدیث: ۴۵۴)