تشریح:
(1) امام صاحب رحمہ اللہ نے استغفار کی اجازت نہ ملنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آپ کی والدہ اسلام سے قبل فوت ہوگئی تھیں اور ایسے لوگوں کے لیے دعائے مغفرت کی ممانعت ہے۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بچپن کی عمر میں تھے جب آپ کی والدہ کی وفات ہوگئی تھی۔ ماں، باپ کی قبر کی زیارت کی خواہش ایک فطری امر ہے جس پر شرعاً بھی کوئی پابندی نہیں۔ قبر کی زیارت کے موقع پر رونا بھی فطری چیز ہے، خصوصاً جبکہ آپ نے عالم ہوش میں پہلی دفعہ اپنی والدہ کی قبر دیکھی تھی۔ اللہ جانے! کس قسم کے جذبات محبت و پیار آپ کےدل میں امنڈ آئے ہوں گے، ممتا کوئی معمولی چیز نہیں۔
(3) والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کے لیے ان کا مسلمان ہونا ضروری نہیں، وہ مسلمان ہوں یا کافر و مشرک ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اولاد کا فرض ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا سند صحيح على شرط مسلم أيضا إلا الاسدي هذا هو ثقة كما قال ابن معين وأبو داود وغيرهما ولم يتفرد به فقد أخرجه أحمد ( 5 / 359 ، 361 ) من طريق أبي جناب عن سليمان بن بريدة عن أبيه : أن رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) غزا غزوة الفتح فخرج يمشي إلى القبور حتى إذا أتى إلى أدناها جلس إليه كأنه يكلم انسانا . . . " الحديث نحوه . ورجاله ثقات غير أن أبا جناب هذا واسمه يحيى بن أبي حية قال الحافظ في " التقريب " : " ضعفوه لكثرة تدليسه " . وسليمان بن بريدة قد تابعه أخوه عبد الله وعنه سلمة بن كهيل بلفظ : " كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فإن في زيارتها عظة وعبرة "
أخرجه أحمد ( 5 / 356 ) من طريق محمد بن إسحاق عن سلمة به . ورجاله ثقات لو لا عنعنة ابن اسحاق . لكنه لم يتفرد به فقد أخرجه النسائي ( 1 / 286 ) من طريق أخرى عن المغيرة بن سبيع حدثني عبد الله بن بريدة به بلفظ : " . . . فمن أراد أن يزور فليزر ولا تقولوا هجرا " . والمغيرة هذا ثقة وكذلك بقية الرجال فالسند صحيح . وفي الباب أحاديث أخرى في الحض على الزيارة قد ذكرتها في كتابي " أحكام الجنائز وبدعها " ( 1 ) المبحث ( 108 ) .