تشریح:
(1) ہر روز کنگھی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کی ضرورت سے زیادہ تزئین کی طرف توجہ ہے جب کہ یہ چیز بہت سی معاشرتی اور اخلاقی خرابیوں کی بنیاد ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، کہتے ہیں: [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن الترجل الاغبا] (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: ۴۱۵۹) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے مگر ایک دن چھوڑ کر۔‘‘ یعنی بلاناغہ روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کی سند میں اگرچہ خفیف سا ضعف ہے لیکن یہ سنن نسائی کے درج ذیل روایت سے ختم ہو جاتا ہے جس کی صحت کو محقق کتاب نے بھی تسلیم کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی مصر پر مقرر گورنر (عامل) کے ہاں تشریف لے گئے اور وہ بھی صحابیٔ رسول تھے۔ دیکھتے ہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں، پوچھا: کیا وجہ ہے، آپ کو پراگندہ حال دیکھتا ہوں جبکہ آپ امیر ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: [کان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینھانا عن الارفاہ، قلنا: وما الارفاہ؟ قال: الترجل کل یوم] (سنن النسائي، الزینة، حدیث: ۵۰۶۱) ’’اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ’’إرفاہ‘‘ سے روکا کرتے تھے، ہم نے کہا: ’’إرفاہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے فرمایا: روزانہ کنگھی کرنا۔‘‘ اس حدیث میں بھی روزانہ کنگھی کرنے سے ممانعت کا ذکر ہے، خصوصاً اس نہی کی وجہ سے صحابیٔ رسول فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بھی باوجود یکہ عظیم عہدے پر فائز تھے روزانہ کنگھی نہیں کر تے تھے، حالانکہ انھیں بال بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی اشد ضرورت بھی تھی۔ یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ روزانہ کنگھی کرنا ممنوع ہے اور اس میں ایک درجہ زہد و ورع کا بھی پہلو نمایاں ہے جو یقیناً ایسے افراد کے لیے مطلوب ہے کیونکہ اکثر اوقات اسی بناؤ سنگھار میں لگے رہنا کم از کم دیندار لوگوں کا شیوہ نہیں ہے، نیز اس میں ممانعت عام ہے جو امت کے ہر فرد کو شامل ہے۔ اس ممانعت میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، تخصیص کی دلیل معلوم نہیں جبکہ جمہور علمائے کرام اس نہی کو زجرو توبیخ پر محمول کرتے ہیں کہ اس سے مراد اکثر و بیشتر اسی عمل میں مصروف رہنا قابل مذمت ہے نہ کہ اس سے حقیقی حرمت مراد ہے کہ انسان روزانہ کنگھی نہیں کرسکتا۔ بہرحال احادیث کے ظاہر اور صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ممانعت ہی ثابت ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: ۵۰۱)
(2) غسل خانے میں پیشاب سے متعلق دیکھیے: حدیث ۳۶۔ اگلی حدیث میں جنبی کے غسل سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی رخصت کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے اس حدیث میں اس سے ممانعت استحباب پر محمول ہوگی، یعنی اس سے بچنا بہتر ہے، تاہم استعمال کرنا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي والعسقلاني والعراقي) .
إسناده: ثنا أحمد بن يونسر: ثنا زهير عن داود بن عبد الله عن حميد
الحميري.
وهذا سند صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن عبد الله
الأودي؛ وهو ثقة باتفاق النقاد.
وللحديث تتمة تأتي برقم (74) .
والحديث أخرجه النسائي أيضا (1/47 و 2/276) ، والحاكم (1/ 168) ،
والبيهقي (1/190) من طرق عن داود بن عبد الله الأودي عنه. وقال البيهقي:
" رواته ثقات؛ إلا أن حميداً لم يسم الصحابي الذي حدثه؛ فهو بمعنى
المرسل "!
وتعقبه ابن التركماني فأصاب، حيث قال:
" قد قدمنا أن هذا ليس بمرسل، بل هو متصل؛ لأنّ الصحابة كلهم عدول،
فلا تضرهم الجهالة ".
ولذلك قال النووي في "المجموع " (2/91) ، والعراقي في "التقريب " (2/40) ،
والحافظ في "بلوغ المرام " (1/22 من شرحه) :
" وإسناده صحيح ". وقال في "الفتح " (1/240) :
" رجاله ثقات، ولم أقف لمن أعله على حجة قوية، ودعوى البيهقي أنه في
معنى المرسل مردودة؛ لأنّ إبهام الصحابي لا يضر، وقد صرح التابعي بأنه لقيه.
ودعوى ابن حزم أن داود- راويه عن حميد بن عبد الرحمن- هو ابن يزيد الأودي،
وهو ضعيف: مردودة؛ فإنه ابن عبد الله الأودي، وهو ثقة، وقد صرح باسم أبيه أبو
داود وغيره ".
والحديث سكت عليه المنذري (رقم 26) .
وله شاهد بسند حسن عن عبد الله بن يزيد، خرّجته في "الصحيحة"
(2516) في التبوُل.