تشریح:
(۱) شہد میں زکاۃ اختلافی مسئلہ ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ شہد میں عشر کے قائل ہیں کیونکہ اس بارے میں کچھ احادیث منقول ہیں، اگرچہ بعض میں کلام ہے مگر مجموعی طور پر قوی ہو جاتی ہیں، لہٰذا وہ قابل حجت ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ نے شہد میں عشر کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل اور طرق وشواہد کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل، رقم الحدیث: ۸۱۰) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تو ہر قلیل وکثیر شہد میں عشر کے قائل ہیں۔ لیکن یہ موقف درست نہیں کیونکہ انھی احادیث میں اس کا نصاب بھی دس مشکیزے بتایا گیا ہے۔ اور یہی راجح ہے۔ امام مالک، امام شافعی اور امام بخاری رحمہم اللہ شہد میں عشر کے قائل نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مذکورہ روایات ضعیف ہیں، نیز اس باب میں مذکورہ حدیث میں ایک علاقہ حضرت ہلال رضی اللہ عنہ کے لیے مخصوص کرنے کے عوض شہد کا ایک حصہ وصول کرنے کا ذکر ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ اگر علاقہ مخصوص نہ کیا جاتا تو عشر کا مطالبہ نہ ہوتا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ علاقہ مخصوص کرنے کی وجہ سے ان کے پاس شہد کی کثیر مقدار جمع ہو جاتی تھی، لہٰذا ان پر زکاۃ واجب تھی جبکہ معمولی مقدار میں شہد حاصل کرنے والے پر زکاۃ (عشر) واجب نہیں، جس طرح دوسری عشری چیزوں میں ہے۔ بہرحال تجارتی بنیادوں پر شہد کا وسیع کاروبار کرنے والوں پر زکاۃ لاگو ہوگی۔
(2) ”بارشی مکھی۔“ کیونکہ بارش کا اس کی افزائش سے گہرا تعلق ہے، اسی لیے بارشی موسم میں مکھی زیادہ ہوتی ہے، یا جن چیزوں پر اس مکھی کا گزارہ ہوتا ہے، وہ بارش ہی سے اگتی اور بڑھتی ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن) .
إسناده: حدثنا أحمد بن أبي شعيب الحَرَّاني: ثنا موسى بن أعْيَنَ عن عمرو
ابن الحارث المصري عن عمرو بن شعيب.
حدثنا أحمد بن عَبْدَةَ الضَّبيُّ: ثنا المغيرة- ونسبه إلى عبد الرحمن بن
الحارث المخزومي- قال: حدثني أبي عن عمرو بن شعيب... به بالرواية الأخرى.
حدثنا الربيع بن سليمان المؤذِّن: ثنا ابن وهب: أخبرني أسامة بن زيد عن
عمرو بن شعيب... بمعنى الغيرة.
قلت: وهذا إسناد حسن؛ لأن مداره على عمرو بن شعيب.
وقد روي مرسلاً، ولا تعارض بينه وبين الموصول، كما بينته في "الإرواء"
(810) ، وقد خرجت الحديث هناك، فلا داعي للإعادة.