تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ آخری جملہ ”پھر نئے سرے سے احرام باندھ۔“ درست نہیں۔ باقی راوی یہ جملہ بیان نہیں کرتے، یعنی امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک یہ اضافہ معلول ہے۔
(2) صحیح یہ ہے کہ چونکہ وہ نا واقف تھا، اس لیے اسے معذور سمجھا اور کفارہ نہیں ڈالا۔ آج کل بھی اگر کوئی شخص واقعی عدم علم کی بنا پر سلہ ہوا کپڑا پہن لے، یا دوران احرام میں خوشبو لگا لے اور پتا چلنے پر فوراً ازالہ کر دے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے اور یہی راجح ہے۔ آخری جملے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے آپ کو محرم ہی سمجھ۔ ورنہ میقات سے آگے جا کر تو احرام باندھنا درست نہیں اور جعرانہ تو کوئی میقات نہیں بلکہ یہاں سے قریب ہی حرم شروع ہوتا ہے۔
(3) جو شخص بھی بھول کر مذکورہ کاموں میں سے کوئی کام کر لے تو اس کا بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ یاد آنے پر وہ فوراً اس کا ازالہ کرے۔
(4) میقات سے پہلے حج کا لباس پہنا جا سکتا ہے لیکن نیت میقات ہی سے کی جائے گی، لہٰذا افضل یہی ہے کہ میقات ہی سے حج و عمرے کا احرام باندھا جائے الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو، مثلاً: ہوائی جہاز کا سفر۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح، ورجال إسناده من الوجهين ثقات، وهو من الوجه
الآخر موصول، لكن فيه عنعنة الحجاج- وهو ابن أرطاة-، وهو مدلس.
ومن الوجه الأول منقطع بين عطاء ويعلى؛ فإن بينهما صفوان بن يعلى، كما
رواه جمع من الثقات، منهم همام عن عطاء، كما سبق في الرواية الأولى. ولذلك
قال الترمذي- عقب الرواية المشار إليها آنفاً-:
" هكذا رواه قتادة والحجاج بن أرطاة وغير واحد عن عطاء. والصحيح: ما روى
عمرو بن دينار وابن جريج عن عطاء عن صفوان بن يعلى عن أبيه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ثم إن المصنف إنما ساق هذه الرواية؛ لما فيها من زيادة: فخلعها من رأسه؛ وهي
زيادة منكرة عندي؛ لعدم ورودها في كل طرق الحديث التي وقفت عليها، وإن كان
الحافظ سكت عليها في "الفتح" (3/309) ، وهو لا يسكت إلا عما كان حسناً
على الأقل عنده، كما نص عليه في "القدمة"، ولكني لاحظت عليه شيئاً من
التساهل في غير ما حديث واحد. والله أعلم.
على أنه قد روي من حديث جابر ما ينافي صراحة هذه الزيادة، كما ينافي
ظاهر الحديث، لكن في إسناده ضعف؛ كما بينته في "الضعيفة" (4844) .
ومثل هذه الزيادة: ما في رواية النسائي في آخر الحديث: ثم أحدث إحرامه!
وقد أنكرها النسائي؛ فقال عقبها:
" ما أعلم أحداً قاله غير نوح بن حبيب، ولا أحسبه محفوظاً ".