تشریح:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ضباعہؓ کی حدیث سے واقف نہ ہوں گے ورنہ جس نبی اکرمﷺ کی سنت وہ بتلا رہے ہیں اسی نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: ”شرط لگا۔“ جس طرح نبیﷺ کی سنت کافی ہے، اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان بھی چون وچرا کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اور شرط والی یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں مذکور ہے۔ اس کی متابعات بھی ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں، لہٰذا شرط لگانا بلا شبہ صحیح ہے۔
(2) ”بیت اللہ کا طواف کرے“ بشرطیکہ وہ وہاں تک پہنچ سکے، حضرت ضباعہ والی روایت میں تو عجز کی صورت ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں تو جہاں عجز طاری ہو وہیں حلال ہونا (احرام کھولنا) پڑے گا، البتہ اگر وہ فرض حج کا احرام تھا تو آئندہ سال دوبارہ حج کرنا ہوگا، اگر وہ طاقت پائے ورنہ اللہ تعالیٰ عذر قبول کرنے والا ہے۔ رسول اللہﷺ عمرہ حدیبیہ میں راستے ہی میں حلال ہوگئے تھے۔ اور کہیں ذکر نہیں کہ آپ نے ان صحابہ کو قضا کا حکم دیا ہو۔