تشریح:
(1) چھپکلی اور اس نوع کے دوسرے جانور زہریلے ہوتے ہیں۔ کسی کھانے پینے کی چیز میں گر جائیں تو اسے زہریلا کر دیتے ہیں حتیٰ کہ موت کا سبب بن جاتے ہیں، لہٰذا انھیں مارنا بھی جائز ہے۔ اگرچہ اس روایت میں محرم کی صراحت نہیں مگر ایذا کی علت کی بنا پر وہ بھی اسے قتل کر سکتا ہے۔
(2) ”آگ بجھانے میں“ یہ دلیل ہے کہ یہ جانور (چھپکلی) طبعاً انسان کے لیے موذی ہے ورنہ اسے کیا پتا تھا کہ یہ آگ کس کو جلانے والی ہے؟ یہ بھی یاد رہے کہ اسے قتل کرنے کی اجازت اس کے طبعی ایذا کی وجہ سے ہے، نہ اس لیے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں ممد تھی کیونکہ وہ تو ایک مخصوص چھپکلی کا فعل تھا۔ اس کی سزا پوری نسل کو تو نہیں دی جا سکتی، نیز اس کے لیے تو نبی اور کافر برابر ہیں۔ وہ تو ہر ایک کو ایذا پہنچائے گی۔
(3) چھپکلی میں اسی نوع کے اس سے بڑے جانور، مثلاً چلپاسہ، یعنی کرلا اور اس جیسے دوسرے موذی جانور بھی آجائیں گے۔
(4) ”گھروں میں رہنے والے باریک سانپ“ کیونکہ یہ عموماً گھر والوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ بچوں تک کو نہیں کاٹتے۔ ان کے بارے میں قتل نہ کرنے کا حکم اس بنا پر بھی ہے کہ شاید یہ ”جن“ کی کوئی قسم ہوں۔ اور جنوں کو مارنا جائز نہیں، نیز قتل کی وجہ ایذا ہے۔ جب وہ ہمیں کچھ نہیں کہتے تو ہم انھیں کیوں کچھ کہیں؟ گھروں میں رہنے والے بڑے سانپ بھی گھر والوں کو کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ نوع انسانی سے کچھ مالوف ہو جاتے ہیں، البتہ آبادی سے باہر رہنے والے سانپ موذی ہیں، لہٰذا انھیں فوراً مار دینا چاہیے۔
(5) ”دودھاری“ یہ بہت زہریلا ہوتا ہے۔ اس کی پشت پر یہ دو دھاریاں بھی زہر کی بنا پر ہی ہوتی ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے ماتھے پر دو سیاہ نشان ہوتے ہیں وغیرہ۔
(6) ”چھوٹا سانپ“ جسم میں چھوٹا مگر سخت زہریلا۔ اچانک حملہ کرتا ہے اور جان سے مار دیتا ہے۔ بعض نے اس کے معنیٰ چھوٹی دم والا سانپ، کیے ہیں مگر سانپ کی الگ دم نہیں ہوتی۔ ویسے آخری حصے کو دم کہا جائے تو الگ بات ہے۔
(7) ”نظر ختم کرتے ہیں… الخ“ یعنی اگر یہ کاٹ لیں یا ان سے آنکھیں چار ہو جائیں تو نظر ختم ہو جاتی ہے اور عورت کا حمل گر جاتا ہے۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 108 :
أخرجه ابن ماجة ( 2 / 295 ) و ابن حبان ( 1082 ) و أحمد ( 6 / 83 و 109 و 217 )
من طريق نافع عن سائبة مولاة للفاكه بن المغيرة . أنها دخلت على عائشة ،
فرأت في بيتها رمحا موضوعا ، فقالت : يا أم المؤمنين ! ما تصنعين بهذا الرمح ؟
قالت : نقتل به الأوزاغ ، فإن نبي الله صلى الله عليه وسلم أخبرنا : فذكره ، و
زاد في آخره : فأمر عليه الصلاة و السلام بقتله .
قلت : و هذا إسناد ضعيف ، رجاله ثقات غير السائبة هذه قال الذهبي : " تفرد عنها
نافع " .
قلت : يشير إلى أنها مجهولة ، فقول البوصيري في " الزوائد " ( 194 / 2 ) :
" هذا إسناد صحيح " غير صحيح لجهالة المذكورة ، لكنها قد توبعت ، فقد أخرج
النسائي ( 2 / 27 ) من طريق قتادة عن سعد بن المسيب : أن امرأة دخلت على عائشة
و بيدها عكاز ... الحديث نحوه .
قلت : و هذا إسناد صحيح إن كان سعد بن المسيب سمعه من عائشة ، و إلا فإن ظاهره
أنه من مرسله . و الله أعلم . و قد خالفه عبد الحميد بن جبير فقال : عن سعيد بن
المسيب عن أم شريك رضي الله عنها : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بقتل
الوزغ ، و قال : كان ينفخ على إبراهيم عليه السلام . أخرجه البخاري ( 6 / 305 -
فتح ) و ابن ماجة و أحمد ( 6 / 421 و 462 ) و ليس عندهما الشطر الثاني منه .