تشریح:
یہ آیت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک تو منسوخ ہے مگر بعض محققین کے نزدیک یہ حسن سلوک کی ایک صورت ہے کہ خاوند وصیت کرجائے کہ میری بیوی کو ایک سال تک گھر سے نکالا نہ جائے تاکہ اسے پریشانی نہ ہو‘ جب وہ اپنا انتظام کرلے تو منتقل ہوجائے۔ البتہ یہ واجب نہیں اور نہ لواحقین کے لیے اس پر عمل واجب ہے۔ چونکہ عورت کا حصہ وراثت مقرر کردیا گیا ہے‘ لہٰذا اسے دوران عدت اخراجات دینا لواحقین کے لیے ضروری نہیں۔﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… غَيْرَ إِخْرَاجٍ﴾ ”جو لوگ قریب المرگ ہوں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو وہ مرنے سے پہلے اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں کہ انہیں ایک سال تک اخراجات دیے جائیں اور انہیں گھر سے نہ نکالا جائے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت کو اس (دوسری) آیت نے منسوخ کردیا: ﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ… أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ ”جو لوگ فوت ہوجائیں اور ان کی بیویاں زندہ ہوں تو بیویاں چار ماہ دس دن تک اپنے آپ کو (ادھر ادھر جانے‘ زیب وزینت کرنے اور نکاح وغیرہ سے) روک کر رکھیں۔“