تشریح:
(1) وقف پر زکاۃ کا حکم نہیں لگتا بلکہ جن کے لیے وقف ہوں‘ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ خواہ وہ امیر ہی ہوں۔
(2) ”رشتہ داروں“ ممکن ہے اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار ہوں یا رسول اللہ ﷺ کے‘ یعنی اہل بیت۔
(3) ”ناظم“ وقف کا ناظم اپنی ذمہ داریوں کے مطابق وقف سے تنخواہ لے سکتا ہے جسے حدیث میں لفظ ”معروف“ سے بیان کیا گیا ہے۔ ناظم کا ہاتھ وقف میں کھلا نہیں ہونا چاہیے ورنہ بدعنوانی کا راستہ کھل سکتا ہے۔