تشریح:
(1) چونکہ عام طورپر معاشرے میں غلام کو کم تر خیال کیا جاتا ہے، اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے مبالغے کی حد تک تاکیدی حکم فرمایا کہ خلیفۃ المسلمین کسی غلام اور وہ بھی حبشی غلام جو کہ عموما پرکشش اور جاذب نظر نہیں ہوتا، کو ماتحت امیر وامام مقرر کردے تو اس کی اطاعت و فرماں برداری بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح کہ ایک آزاد مرد کی۔اس اطاعت میں حریت وعبدیت کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام وامیر بننے کے لیے حریت اور آزادی شرط نہیں ہے کہ صرف آزاد شخص ہی امام اور امیر بن سکے۔ آقا و مولا کی اجازت سے غلام بھی امام وامیر بن سکتا ہے۔ اس صورت میں غلام، صرف غلام ہی نہیں بلکہ امام برحق بھی ہوگا، لہٰذا اس کی اطاعت بھی واجب ہوگی۔
(3) یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ کوئی بھی امام و امیر یا خلیفۃ المسلمین صرف اس صورت میں واجب الطاعۃ ہے جب تک وہ کتاب وسنت کے مطابق احکام دے، لوگوں کو شریعت اسلامیہ کے مطابق چلائے اور خود بھی پابند شریعت بن کررہے، ہاں! اگر کوئی امیر کتاب وسنت کے مخالف محض اپنی خواہش نفس کی اطاعت کرانا چاہے تو اس صورت میں وہ قطعاََ اطاعت کا حق دار نہیں کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: [لا طاعةَ لِمخلوقٍ في معصيةِ اللَّهِ إنَّما الطّاعةُ في المعروفِ ] (مسند أحمد:۹۴/۱)
(4) نیز اس حدیث مبارکہ سے تقلید شخصی کا مکمل طور پر رد ہوتا ہے۔ غیر مشروط اطاعت صرف اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا حق ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دیا جا سکتا ۔