تشریح:
(1) سانڈا حلال ہے۔ حدیث میں مذکور الفاظ [وَلَا أُحَرِّمُهُ ] اس کی تصریح دلیل ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سے بھی صریح ہے کہ انھوں نے ضب، یعنی سانڈے کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: [أحَرامٌ الضَّبُّ يا رَسولَ اللَّهِ؟ ] ”اے اللہ کے رسول! کیا سانڈا حرام ہے؟“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [لا، ولَكِنْ لَمْ يَكُنْ بأَرْضِ قَوْمِي، فأجِدُنِي أعافُهُ ] ”نہیں (سانڈا حرام نہیں) لیکن یہ میری قوم کے علاقے میں نہیں تھا، اس لیے میں اس سے (طبعی طور پر) کراہت محسوس کرتا ہوں۔“ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: ۵۳۹۱، وصحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: ۱۹۴۵)
(2) معلوم ہوا حلال وطیب چیز جو طبعاً ناپسند ہو اسے کھانا ضروری نہیں۔ اس سے اس کی حلت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ناپسند چیز کھانے سے ناخوش گوار اور منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
(3) حدیث میں لفظ ”ضب“ استعمال ہوا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اس کے معنی ”گوہ“ کیے جاتے ہیں لیکن جو اوصاف ضب کے بیان کیے گئے ہیں، وہ تمام کے تمام سانڈے میں بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے درست بات یہی ہے کہ اس سے مراد سانڈا ہے، گوہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
(4) معلوم ہوا ضب حرام نہیں ورنہ آپ کھانے سے منع فرما دیتے، بلکہ آپ کے دستر خوان پر آپ کے سامنے اسے کھایا گیا۔ باقی رہا آپ کا اسے نہ کھانا تو آپ کی طبع لطیف کا تقاضا تھا۔ آپ بہت سی ایسی چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے جو قطعاً حلال ہیں، مثلاً: لہسن، پیاز وغیرہ۔ حلت اور حرمت الگ چیز ہے اور طبعی کراہت وناپسندیدگی الگ چیز ہے۔