تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے اس کا مقصد مشترکہ چیز کی بیع کا حکم بیان کرنا ہے۔ اگر کوئی شریک اپنا حصہ بیچنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دیگر شرکاء سے اس کی اجازت لے۔ اگر کوئی شخص اپنے شریک کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کر دے تو اس کے شریک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس رقم کے عوض جو اس حصے کی لگ چکی ہو یہ حصہ لے لے۔ اس کا حق دیگر تمام لوگوں سے زیادہ اور فائق ہے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ شریک کے لیے شفعے کے ثبوت کی صریح دلیل ہے۔ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔
(3) شریعت مطہرہ کے اصول و ضوابط لوگوں کی خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ ایک چیز میں مختلف شرکاء باہمی مشاورت اور دوسرے کو اعتماد میں لینے کے بعد ہی کوئی اقدام کر سکتے ہیں۔ مشترکہ چیز میں بلا مشاورت تصرف کرنے والے کا تصرف معتبر نہیں ہو گا۔
(4) شفعہ سے مراد وہ حق ہے جو ایک شریک کو دوسرے شریک کے حصے پر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اس کی فروخت کی صورت میں وہ اسے خریدنے کا دوسروں سے بڑھ کو حق دار ہو گا۔ لیکن یہ حق مشترکہ چیز ہی میں ہے۔ جب کوئی چیز تقسیم ہو جائے، حد بندی ہو جائے، راستے تک الگ الگ ہو جائیں اور کچھ بھی اشتراک باقی نہ رہے تو یہ حق بھی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اب شریک نہیں رہے، صرف پڑوس کی بنا پر کسی کو یہ حق نہیں مل سکتا۔ یہ مسئلہ تفصیلاً پیچھے بیان ہو چکا ہے۔
(5) ”ہر مشترکہ چیز“ بعض فقہاء نے اشیائے منقولہ کو شفعہ سے خارج کیا ہے مگر اس کی کوئی عقلی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ جن وجوہ کی بنا پر شفعہ مشروع کیا گیا ہے وہ منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد میں برابر پائی جاتی ہیں۔
(6) اس روایت سے ثابت ہوا کہ مشترکہ چیز ساری کی ساری بھی بیچی جا سکتی ہے اور اس کے کچھ مخصوص حصے بھی، یعنی کوئی شریک صرف اپنا حصہ بھی فروخت کر سکتا ہے، خواہ شریک کو بیچے یا اس کی اجازت سے کسی اور کو۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔