تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتے ہیں؟ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شرعی حدیں اور سزائیں کسی مجرم پر اس وقت نافذ ہوتی ہیں جب انسان بالغ ہو جائے۔ جب تک کوئی شخص بالغ نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس پر حد نہیں لگ سکتی۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی نا بالغ بچہ ایسا جرم کر بیٹھے جس پر شرعی حد لاگو ہوتی ہو تواس وقت کیا کیا جائے؟ مسئلہ بالکل یہی ہے کہ نابالغ بچے پر شرعی حد نہیں لگ سکتی، تاہم قابل حد جرم سرزد ہونےکی صورت میں قاضی اور جج یا حاکم وقت، ادب سکھانے کی خاطر اسے کوئی مناسب سزا دے سکتا ہے۔ واللہ أعلم.
(2) شریعت مطہرہ نے کچھ علامات بتائی ہیں جب ان میں سے کوئی ایک علامت کسی لڑکے یا لڑکی میں پائی جائے تو وہ بالغ ہوتاہے۔ مردوں کے لیے تین علامتیں ہیں، وہ تینوں ہوں یا ان میں سے کوئی ایک ہوتو مرد بالغ سمجھا جائے گا: احتلام ہو نا، زیرناف سخت بال اگنا یا عمر پندرہ سال ہونا۔ البتہ عورت کے لیے مذکورہ تین علامتوں کے علاوہ، جو کہ مرد اور عورت دونوں میں مشتر ک ہیں، دواور بھی ہیں جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ ہیں: حیض آنا کسی عور ت کا حاملہ ہونا۔
(3) ”بنو قریظہ کے قیدی“ بنو قریظہ مدینہ میں رہنے والے یہو دیوں کا ایک قبیلہ تھا جنہوں نے جنگ خندق میں مسلمانوں سے بغاوت کرکے حملہ کرنے والے دشمن کا ساتھ دیا، لہٰذا جنگ خندق ختم ہونے کے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ اپنے حلیف قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ کے سپرد کر دیا۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے بالغ مرد قتل کردیے جائیں اور عورتیں بچے قید کرلیے جائیں، لہذا ان کےفیصلے کے مطابق عمل ہوا۔
(4) میاں بیوی کےسوا کسی کے لیے یہ جائز اور حلا ل نہیں کہ وہ کسی کی شرم گاہ دیکھے، تاہم حقیقی شرعی عذر اس اصول سے مستثنیٰ ہے، مثلا: کسی کی جان بچانے کا مسئلہ در پیش ہو اور آپریشن ناگزیر ہوتو معالج مریض کو ضرورت کے مطابق، بے لباس کرسکتا ہے۔ اور پھر ضرورت حتم ہوتے ہی شرم گا ہ کو ڈھانپنا ضروری ہے۔
(5) ”جس قیدی“ یعنی نوعمر قیدی جس کی بلوغت میں شک ہوتا تھا ورنہ بڑی عمر کے آدمی کے بال دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔
(6) ”زندہ چھوڑ دیا جاتا“ یعنی اسے قیدی (غلام ) بنا لیا جاتا تھا۔ یہ عطیہ بھی ان میں شامل تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے۔ؓ