تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اعمال بھی مسمی ”ایمان“ میں داخل ہیں۔ یہ اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے۔ اور یہی حق ہے جبکہ بعض لوگ اس کے قائل نہیں۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ حیا ایمان کی ایک شاخ ہے کیونکہ حیا سے انسان کے اندر نیکی کا جذبہ اور اعمال صالحہ کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، ایمان کے منافی امور سے انسان بچتا اور اعلیٰ اخلاق وکردار کاحامل بنتا ہے۔
(3) ایمان کو درخت سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ جڑ، تنے، ٹہنیوں، شاخوں، پتوں، پھلوں اور پھولوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اسی طرح ایمان بھی بہت سے عقائد واعمال اور اخلاق کے مجموعے کانام ہے۔ عقیدے کی حیثیت جڑ کی ہے۔ ارکان کی حیثیت تنے اور ٹہنیوں کی ہے۔ دیگر اعمال شاخوں اور پتوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور اخلاق کی حیثیت پھولوں اور پھلوں کی ہے۔ عقیدے کی خرابی کا اثر اعمال واخلاق میں ظاہر ہوتا ہے جس طرح بیج اور جڑ کی خرابی پودے کی ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے، اور اعمال کی کمی بیشی درخت کو ناقص بنا دیتی ہے اور اخلاق کی خرابی درخت کی زینت پر اثر ڈالتی ہے۔
(2) ”ستر سے زائد“ گویا ایمان بہت سے اعمال کے مجموعے کا نام ہے۔ ستر کا لفظ کثرت کے لیے بھی بولا جاتاہے۔ زائد کہہ کر مزید کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن معین عدد مراد ہو۔ زائد ترجمہ ہے بضع کا جو تین سے نو تک کے عدد پر بولا جاتا ہے۔