تشریح:
(1) جانور کی ہڈی اور اس کے گوبرسے استنجا کرنا ممنوع ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
(2) ان کاموں سے خاص طور پر دور رہنا چاہیے جن کے ارتکاب پر رسول اللہ ﷺ نے اظہار براءت فرمایا ہے۔ اس سے بڑھ کر ناکامی اور خسارہ کیا ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ فرما دیں کہ فلاں شخص سےمیں بری ہوں۔ اس کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں۔ أعاذنا اللہ منه۔
(3) شاید، یہ دراصل پیش گوئی تھی کہ میرے بعد عرصۂ درازتک زندہ رہے گا۔ اور واقعتاً ایسے ہی ہوا۔ حضرت رویفع رضی اللہ عہ ۵۳ھ میں فوت ہوئے اور افریقہ میں فوت ہونے والے آخری صحابی یہی ہیں۔ ”شاید“ کا لفظ اظہار عبدیت کے لیے ہے، جیسے ان شاء اللہ کہا جاتا ہے۔
(4) ”ڈاڑھی کو گرہیں دیں“ جیسے عموماً سکھوں میں دیکھا جاتا ہے یا بالوں کو بل دے کر ویسے ہی گرہیں دی جائیں، دونوں صورتیں ہی مذموم ہیں۔ بعض لوگ بالوں کو اس طرح بل دیتے اور لپیٹتےہیں کہ بڑی سے بڑی ڈاڑھی بھی چھوٹی ہوتی ہے اور بآسانی کھل کر لٹکتی بھی نہیں۔ اگرچہ بظاہر ڈاڑھی میں گانٹھ محسوس تونہیں ہوتی لیکن نتیجے میں اس سے کم بھی نہیں ہوتی، اس لیے اس صورت تلفیف سے بھی اجتناب بہتر ہے۔ ڈاڑھی میں سنت طریقہ تسریح ہے، یعنی اسے کھلا چھوڑا جائے۔ ڈاڑھی کو بل دے کر اوپر چڑھا لینا ایک غیر ضروری تکلف سا لگتا ہے، لہذا اس سے احترازبہتر ہے۔ بعض نے اس سے مراد یہ لیا ہے کہ نماز کے دوران میں ڈاڑھی سے کھیلتے نہیں رہنا چاہیے۔ یا نماز شروع کرنے سے پہلے ڈاڑھی کو مٹی سے بچانے کےلیے گرہ نہیں دینی چاہیے، جیسے آپ نے سر کے بال باندھنے اور کپڑے سمیٹنے سے روکا ہے۔ گویا نماز میں اپنے جسم وغیرہ کو مٹی سے بچانے ہی کو فکر نہیں کرتے رہنا چاہیے بلکہ توجہ نماز کی طرف ہی رہنی چاہیے۔
(5۔ ”تندی ڈالی“ ذبح شدہ جانور کے پٹھے کی رگ کو تندی کہتے ہیں۔ یہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ قوس کے کناروں کو باندھی جاتی ہے تاکہ لچک کی وجہ سے تیر دور پھینکنے میں مدد ملے۔ جاہلیت میں لوگ کاہنوں سے تندی پڑھوا کر اپنے گلے میں ڈالتے تھے تاکہ نظر بد سے محفوظ رہیں۔ چونکہ کاہن شرکیہ الفاظ پڑھتے تھے، لہٰذا اس سے منع فرمایا۔
(6) ”گوبر اور ہڈی سے استنجا“ کیونکہ ان سے صفائی نہیں ہوتی، اس لیے ان سے استنجاء کرنا منع ہے، نیز یہ جنوں کی خوراک ہیں۔ گوبر ویسے بھی گندگی کی طرح ہے۔
الحکم التفصیلی:
الارواہ الغلیل:27
(قلت: حديث صحيح، وقال النووي: إسناده جيد) .
إسناده: ثنا يزيد بن خالد بن عبد الله بن موهَب الهمداني: ثنا المفَضلُ- يعني:
ابن فَضَالة المصري- عن عياش بن عباس القِتْبَاتي أن شِيَيْم بن بَيْتان أخبره عن
شيبان القتباني.
وهذا سند رجاله كلهم ثقات؛ غير شيبان القتباتي؛ فهو مجهول، كما في
"التقريب ".
لكن قد سمع الحديث شييم بن بيتان من رويفع بن ثابت مباشرة أيضا، كما
يأتي؛ كما أن له فيه إسناداً آخر.
والحديث أخرجه البيهقي (1/110) من طريق المؤلف بهذا الإسناد، وكذلك
أخرجه أحمد (4/109) قال: ثنا يحيى بن غيلان قال: ثنا المفضل... به.
وتابعه ابن لهيعة فقال: ثنا عياش بن عباس عن شييم بن بيتان قال: ثنا
رويفع بن ثابت قال:
كان أحدنا عْي زمان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَِ... الحديث.
أخرجه أحمد (4/108) ، وابن لهيعة ثقة يخشى من سوء حفظه.
لكن تابعه على روايته هكذا حيوة بن شريح؛ وهو ثقة حجة من رجال
الشيخين: أخرجه النسائي (2/277) : أخبرنا محمد بن سلمة قال: ثنا ابن وهب
عن حيوة بن شريح- وذكر آخر قبله- عن عياش.
فهذا إسناد صحيح متصل بسماع شِييم من رويفع، وليس عند النسائي إلا
المرفوع من قوله عليه الصلاة والسلام:
" يا رويفع! لعل الحياة... " إلخ.
والحديث سكت عليه الحافظ في "التلخيص " (1/499- 500) . وقال النووي
(2/116) :
" رواه أبو داود والنسائي بإسناد جيد ".
وقد رواه الطحاوي في "شرح المعاني " (1/74) من طريق أصبغ بن الفرج قال:
ثنا ابن وهب... به.
وسكت عليه المنذري أيضا (رقم 33) .